سائنسدانوں نے ایک نیا مادہ دریافت کیا ہے جو پوری دنیا کو بدل کر رکھ سکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا سپر کنڈکٹنگ مادہ بنایا ہے جو درجہ حرارت اور دباؤ دونوں حالات میں کام کرتا ہے اور عملی حالات میں استعمال کرنے کے لیے اس کی کم مقدار بھی کافی ہے۔
یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس کے لیے سائنس دان ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کوشش کر رہے تھے یعنی ایسا مواد ہے جو بغیر کسی مزاحمت کے بجلی کی ترسیل کرنے کے قابل ہو اور مواد کے گرد مقناطیسی فیلڈ کو منتقل کر سکے۔
اس مواد کی دریافت سے ایسے پاور گرڈ بنائے جا سکتے ہیں جو بغیر کسی رکاوٹ کے توانائی کی ترسیل کر سکتے ہیں جن سے 200 ملین میگا واٹ گھنٹے کی بچت ہو گی، جو فی الحال ٹرانسمیشن لائنز میں موجود مزاحمت کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔
یہ مادہ جوہری فیوژن میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے جو اگرچہ ایک طویل عمل ہے لیکن لامحدود توانائی پیدا کر سکتا ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس سے فیض یاب ہونے والی دیگر ایپلی کیشنز میں تیز رفتار بلیٹ ٹرینیں اور نئی قسم کے طبی آلات شامل ہیں۔
موجودہ دریافت میں کام کرنے والے سائنسدان رنگا دیاس کی سربراہی میں ایک ٹیم نے پہلے کی دو تحقیقات میں اس حوالے سے کم پیش رفت کا مشاہدہ کیا لیکن انہوں نے اسی طرح کے سپر کنڈکٹنگ مواد کی تخلیق کی رپورٹ دی تھی جو ’نیچر اینڈ فزیکل ریویو لیٹرز‘ میں شائع ہوئی تھی۔
سائنسدانوں کے نقطہ نظر پر اٹھنے والے سوالات کے بعد ایڈیٹرز نے بالآخر نیچر پیپر کو واپس لے لیا۔
لیکن اس بار پروفیسر دیاس اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسی ہی تنقید سے بچنے کے لیے اضافی اقدامات کیے ہیں۔
سائنسدانوں نے پرانے پیپر کی توثیق کرنے کے لیے ایک لیب میں جمع کیے گئے نئے ڈیٹا کے ساتھ سائنسدانوں کی ایک ٹیم کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کیا اور نئی تحقیق کے لیے اسی طرح کا عمل شروع کیا۔
نئے مادے کو ‘Evidence of near-ambient superconductivity in a N-doped lutetium hydride’ کے عنوان سے ایک مقالے میں بیان کیا گیا ہے جو ہفتے کو سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوا۔
اس مادے کو اس کے رنگ اور فلم ’سٹار ٹریک‘کی مناسبت سے ’ریڈ میٹر‘ (redmatter) کا نام دیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ نام اسے تخلیق کرنے کے عمل کے دوران دیا جب سائنس دانوں نے دیکھا کہ اس کا رنگ حیرت انگیز طور پر ’بہت چمکدار سرخ‘ ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر دیاس اور ان کی ٹیم نے یہ نیا مادہ لیوٹیم نامی نایاب زمینی دھات کو ہائیڈروجن اور نائٹروجن کے ایک چھوٹے حصے کے ساتھ ملا کر بنایا۔ اس کے بعد انہیں دو یا تین دن کے لیے اسے بلند حرارت پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
پیپر کے مطابق کمپاؤنڈ کا رنگ اس عمل کے بعد گہرا نیلا ہو گیا لیکن اس کے بعد اسے بہت زیادہ دباؤ دیا گیا اور یہ سپر کنڈکٹیویٹی تک پہنچنے کے بعد نیلے سے گلابی رنگ کا ہو گیا اور پھر یہ نان سپر کنڈکٹنگ دھاتی حالت پر ایک بار پھر گہرا سرخ ہو گیا۔
مادے کو کام کے قابل بنانے کے لیے اب بھی 20.5 ڈگری سیلسیئس پر گرم کرنے اور تقریباً ایک لاکھ 45 ہزار پی ایس آئی پر کمپریس کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن یہ دوسرے ملتے جلتے مواد کے مقابلے میں بہت کم شدت کا درجہ حرارت اور دباؤ ہے جن کا پروفیسر دیاس نے 2020 میں اعلان کیا تھا جس نے کچھ سائنس دانوں میں جوش و خروش اور کچھ میں شکوک و شبہات پیدا کیے تھے۔
اس مقالے میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کافی عملی ہے اور یہ سپر کنڈکٹنگ مواد کے عملی استعمال کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔
پروفیسر دیاس نے ایک بیان میں کہا: ’سپر کنڈکٹنگ کنزیومر الیکٹرانکس، انرجی ٹرانسفر لائنز، ٹرانسپورٹیشن اور فیوژن کے لیے میگنیٹک کانفائنمنٹ میں نمایاں بہتری کا راستہ اب ایک حقیقت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اب جدید سپر کنڈکٹنگ دور میں داخل ہو گئے ہیں۔‘
ان عملی ایپلی کیشنز میں ’ٹوکامک مشینز‘ کی ترقی کو تیز کرنے کے لیے اس مادے کا استعمال شامل ہو سکتا ہے جو نیوکلیئر فیوژن کو حاصل کرنے کے لیے تیار کی جا رہی ہیں۔
© The Independent