یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
میں اپنی اس تحریر کے آغاز میں ہی واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میں صرف اور صرف ایک عورت ہوں۔
ایک 32 سالہ عورت جو خود اپنی صحت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس موضوع پر بلاگ لکھنے کا مقصد محض اس پر لوگوں بالخصوص خواتین کی توجہ مرکوز کروانا ہے۔
ہو سکتا ہے اس میں ایسی کوئی نئی بات نہ ہو، جو خواتین پہلے سے نہ جانتی ہوں لیکن کیا ہم ہر جانی ہوئی بات پر عمل کرتے ہیں؟ خاص کر ایسی بات جو ہمارے بارے میں ہو۔ ہماری صحت اور تندرستی کے بارے میں ہو؟
نہیں۔ تو کیوں نہ اس پر بار بار بات کی جائے یا کم از کم کچھ ماہ میں ہی ایک بار بات کر لی جائے۔
ہم خواتین کو صرف اور صرف اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کا خیال رہتا ہے۔ کہیں ہماری کسی بات یا کسی قدم سے ہمارے ماں باپ کی عزت خراب نہ ہو جائے۔ ہم اسی پریشانی میں اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔
اس دوران ہمارا اپنا کیا حال ہوتا ہے۔ ہم اس طرف توجہ نہیں دیتیں۔ میں بھی نہیں دیتی تھی لیکن 30 کا ہندسہ عبور کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اب پہلے والے حالات نہیں رہے۔
میرا جسم تھکنا شروع ہو گیا۔ میری جلد ڈھلکنے لگی۔ میرا سانس پھولنے لگا۔ میری بھاگ دوڑ کم ہو گئی۔ حتیٰ کہ ایک دم سے میرا اٹھنا اور بیٹھنا بھی مشکل ہو گیا۔ میں جیسے ایک دم سست سی ہو گئی۔
دل بے شک خود کو جوان محسوس کر رہا ہے لیکن جسم وقت کے حساب سے ہی اپنے انجام کی طرف جا رہا ہے۔
30 کے بعد خواتین میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں۔ کسی میں کچھ تو کسی میں کچھ۔ عموماً ان کے بال جھڑنے لگتے ہیں، جلد ڈھلکنے لگتی ہے، جسم بے جان سا ہوتا چلا جاتا ہے، حیض تکلیف دینے لگتے ہیں، جسم میں ہارمونز کا طوفان مچنے لگتا ہے۔ اس طوفان کے پھر الگ اثرات ہوتے ہیں۔
ایسے میں بہت ضروری ہے کہ خواتین سال میں کم از کم ایک بار کسی ماہر اور مستند ڈاکٹر سے اپنا تفصیلی طبی معائنہ ضرور کروائیں۔
پاکستان میں دل کی بیماریاں عام ہیں۔ ذیابیطس اور بلڈ پریشر بھی ہر دوسرے انسان کو ہے، اس لیے بہتر ہے کہ خواتین سال میں ایک بار خون کے ٹیسٹ کے ذریعے دل کی جانچ ضرور کروائیں۔
جن کے خاندان میں ذیابیطس ہو وہ اس کے لیے بھی باقاعدہ سکریننگ کروائیں۔ اس کے علاوہ سال میں کم از کم ایک بار تھائرائیڈ فنکشن ٹیسٹ بھی ضرور کروائیں۔
چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’پنک ربن‘ کے مطابق پاکستان میں ہر روز چھاتی کے کینسر کی وجہ سے 109 خواتین کی موت واقع ہوتی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ چھاتی کے کینسر کی بروقت تشخیص اور صحت مند زندگی سے اس موذی مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔
اگر کسی کے خاندان میں کسی کو چھاتی کا کینسر ہوا ہو تو انہیں اس بارے زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔
40 سال سے زائد عمر کی خواتین کو ہر سال سکریننگ میموگرام کرانا چاہیے۔
پاکستان میں میموگرام مہنگا ہے۔ حکومت کو اس کی قیمت کم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ ہر عورت بے فکری سے میموگرام کروا کر اپنی صحت کا خیال رکھ سکے۔
اس کے علاوہ خواتین کو پیپ سمیر اور ٹرانس ویجائنل سکین بھی سال میں ایک بار ضرور کروانا چاہیے تاکہ بروقت سروائیکل کینسر کی تشخیص اور علاج ہو سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی ذہنی صحت کا بھی لازمی خیال رکھنا چاہیے۔ جسمانی صحت اچھی ہو اور ذہن میں خیالات کا طوفان مچا ہو، تب بھی انسان صحت مند زندگی نہیں گزار سکتا۔
جو چیزیں آپ کے قابو میں نہیں ہیں، ان کے متعلق پریشان ہونا چھوڑ دیں۔ جو آپ کے قابو میں ہیں، ان پر دھیان دیں۔ یہ کہنا یا لکھنا بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔
ہم خواتین بہت بہادر ہوتی ہیں۔ ہم زندگی میں آنے والی ہر کٹھنائی کا بھرپور مقابلہ کرتی ہیں اور ویسے بھی کہتے ہیں کہ عورت کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرلے تو وہ اسے کر کے ہی دم لیتی ہے۔
تو بس آج سے ہی شروع کریں۔ اپنے فون پر کوئی بھی ایسی ایپ ڈاؤن لوڈ کر لیں جس میں آپ اپنے ان ٹیسٹس کا ریکارڈ مرتب کر سکیں۔
ہر سال کے لیے ایک یادہانی لگا لیں۔ ہر ماہ کچھ پیسے ان ٹیسٹس کے لیے ایک طرف کریں۔ جیسے باقی اخراجات ضروری ہیں ویسے ہی یہ خرچ بھی ضروری ہے۔
ایک ڈائری ضرور لکھیں۔ فون پر ہی کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کر لیں یا فون میں موجود نوٹ پیڈ کو ہی استعمال کرنا شروع کر دیں۔
اپنے ذہن میں آنے والی تمام سوچوں کو اس ڈائری کے حوالے کر کے تھوڑی دیر کے لیے پرسکون ہو جائیں۔
اپنی پسند کی سرگرمی ڈھونڈیں۔
شروع میں اس میں بھی دل نہیں لگے گا لیکن کرتی رہیں۔ آہستہ آہستہ جسم اور دماغ صحت مندی کی طرف جائے گا تو آپ کو اس سرگرمی میں مزہ ملنے لگے گا۔
اس سے زیادہ کچھ نہ سوچیں۔ زندگی بس یہی ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا صروری نہیں۔