دنیا بھر میں زیر زمین پانی کا پتہ لگانے کے لیے بہت سے سائنسی طریقے رائج ہیں لیکن بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک ایسا قدیم طریقہ بھی رائج ہے جسے کشہ کہا جاتا ہے۔
کشہ کے ماہر محمد اکرم ریکھی کے مطابق یہ طریقہ ’ہزاروں سال پرانا‘ ہے۔
ان کے مطابق کشہ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کی معنی غلیل یا توشہ کے ہیں جس پر ربڑ یا دھاگہ باندھ کر بنایا جاتا ہے۔
اکرم ریکھی اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے کشے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر خاص انداز میں چلتے ہوئے زیر زمین پانی کے ہونے یا نہ ہونے کا پتہ لگاتے ہیں۔ وہ اس طرح نہ صرف پانی کی موجودگی کا تعین کرتے ہیں بلکہ اس پانی کے میٹھے یا کھارے ہونے کا تعین بھی کرتے ہیں۔
اس طریقے پر عمل کرتے ہوآئے اکرم ریکھی اس علاقے میں توشہ اٹھائے آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیتے ہیں جہاں سے پانی نکالنا مقصود ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جس جگہ پانی ہوتا ہے وہاں پہنچ کر یہ توشہ خود بخود اوپر کی جانب گھوم جاتا ہے۔
اکرم ریکھی کہتے ہیں کہ ’یہ بہت پرانا طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ کتابوں کے مطابق 17ویں صدی کے قریب انگریز اور جرمن وغیرہ استعمال کرتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کے علاوہ دنیا میں جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے تو یہ 1500 یا 2000 سال پہلے استعمال ہوتا تھا۔ اب جدید سسٹم آ چکا ہے لیکن ہم ابھی بھی زیر زمین پانی کی موجودگی معلوم کرنے لیے جدید مشینوں کے ساتھ اس قدیم طریقے کو بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
اکرم ریکھی اپنے تیار کردہ آلے (توشے) سے نہ صرف پانی کا مقام بلکہ اس کی نوعیت اور گہرائی بھی جانچتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اس کے بدولت پانی کا عین مقام، اس کی خاصیت کے وہ میٹھا ہے یا کھارا ہے اور گہرائی 75 فیصد تک بتا سکتے ہے کہ اتنے میٹرز کے آس پاس کھود نے کے بعد پانی تک بور پہنچے گا۔‘
اکرم ریکھی بتاتے ہیں کہ میں تقریباً 20 سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ شروع شروع میں ہم اس دیسی طریقے سے زیر زمین پانی معلوم کرتے تھے۔ اس کو پشتوں میں توشہ یا لکڑی والا حساب کتاب کہتے ہیں۔‘
توشے کی ساخت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’یہ آپ بید کا بھی بنا سکتے ہیں عام درخت کی شاخ سے بھی جو قدرتی طور پر آپس میں جڑا ہوتا ہے۔ اس سے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو آپ اس کو دھاگے سے باندھ کر بھی اس سے کام لے سکتے ہیں۔ اس کو اس طرح سے پکڑ کر دونوں اطراف کو ایک ہی لیول میں لانا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پرانے زمانے میں یہی کامیاب طریقہ کار تھا اور پرانے حوالوں میں ذکر ہے کہ اس سے معدنیات اور تیل وغیرہ تلاش کیا جاتا تھا۔‘