صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات ملتوی کیے جانے سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کر لیں، اگر الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے۔‘
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران سوالات اٹھائے کہ ’شفاف انتحابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟ بنیادی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہو گئی ہے، ساز گار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ استعمال نہ ہو، اگر معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں، سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’حکومت سے پوچھتے ہیں کہ چھ ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں۔‘
جسٹس منیب نے کہا کہ ’انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہو گیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آ جاتے، الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشنز چھ ماہ آگے کیوں کر دیے؟ کیا ایسے الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پورے کرے گا؟ کیا انتخابات میں چھ ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں؟‘
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ’تاریخ مقرر ہو جائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔‘
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کر سکتا ہے تاریخ نہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے۔‘
الیکشن کی تاریخ ’آٹھ اکتوبر کی جگہ آٹھ ستمبر یا آٹھ اگست کیوں نہیں ہو سکتی؟
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ’گورنر اور صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں واضح ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دے گا، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالاتر ہے؟‘
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کر لیں، آٹھ اکتوبر کی جگہ آٹھ ستمبر یا آٹھ اگست کیوں نہیں ہو سکتی؟‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’چھ ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد آٹھ اکتوبر کو پہلا اتوار بنتا ہے۔‘
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 'صدر کی تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا، جب معلوم تھا کہ 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہو سکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی۔'
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ’معاملے کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا۔ حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں۔‘
جسٹس منیب نے کہا کہ سیکشن 58 الیکشن کمیشن کو تاریخ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ چاہتے ہیں عدالت آٹھ اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقعے پر کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کا دفاع کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں یہ درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’عدالت صرف الیکشن کمیشن کا حکم غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہونے پر ہی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا بدنیتی کا نکتہ درخواست گزار نے اٹھایا ہے؟ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’درخواست میں بدنیتی کا نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔‘
’نگران حکومت اپنی مدت میں توسیع کیسے کر سکتی ہے؟‘
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے نگران حکومت کا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صوبے میں پہلے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہو گا۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’نگران حکومت اپنی مدت میں توسیع کیسے کر سکتی ہے، اس قسم کا نکتہ نگران حکومت کیسے اٹھا سکتی ہے، کیا ہر ضمنی الیکشن کے لیے نگران حکومت لانی پڑے گی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا پنجاب حکومت اپنی حد تک الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتی ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ پولیس اہلکار مصروف ہیں اس لیے افواج کی تعیناتی کا کہا تھا، دستیاب وسائل میں رہ کر معاونت کر سکتے ہیں۔'
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل مکمل کر لیے اب کل اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
عدالتی حکم نامے کے بغیر صدر نے تاریخ کیسے دے دی؟
اس سے قبل سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک عدالتی حکم نامہ جاری نہیں کیا، جب عدالتی حکم نامہ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب عدالتی حکم نامہ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟‘
سماعت کے آغاز میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے ریمارکس سے ابہام پیدا ہوا۔ میں اپنے فیصلے اور شارٹ آرڈر پر آج بھی قائم ہوں۔ اندرونی معاملہ صرف ہمارے رولز کا ہے۔‘
پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ بدھ کے روز جب سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ’پارٹی بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ پی پی پی، پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے۔‘
عرفان قادر الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش ہوہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی دستاویز کب آئی۔ آپ ایک وکیل کی جگہ پر آرہے ہیں۔‘
عرفان قادر نے کہا کہ ’اگر اپ نے مسٹر شرجیل سواتی کو سننا ہے تو سن لیں۔ آپ اپنی مرضی کے وکیل کو سن لیں۔ صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت مجھے الیکشن کمیشن کے وکیل کے طور پر سننا چاہتی ہے یا نہیں؟ بینچ کہہ دے کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی نہ کروں تو چلا جاؤں گا۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے گذشتہ روز حامد علی شاہ اور سجیل سواتی پیش ہوئے تھے۔‘ یہ سن کر عرفں قادر نے کہا ’ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’میں اپنی گزارشات پیش کروں گا، الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سجیل سواتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کر دیں، آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، انتخابات کے لیے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف د کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف کورٹ نہیں توالیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلہ کے پیراگراف 14 اور ابتدا کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، یہ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کھلی عدالت میں پانچ ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پہ دستخط کیے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے۔‘
سجیل سواتی نے جواباً کہا کہ ’4/3 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے مداخلت کی اور کہا کہ ’جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔‘
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔
اسی اثنا میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کمرہ عدالت میں دلائل سنتے سنتے سو گئے تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر رانا ثنا اللہ کو نیند سے جگایا۔ وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور بھی کمرہ عدالت میں سو گئے تھے۔
فی الحال سماعت میں وفقہ ہے جو کہ کچھ دیر بعد دوبارہ شروع ہو گی۔
الیکشن کے لیے کتنا بجٹ رکھا گیا ہے؟ اٹارنی جنرل سے سوال جواب
چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کے لیے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا؟‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا، ’انتخابات کے لیے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا، ’اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہو گا؟‘
اٹارنی جنرل جواب دیا، ’ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہو گا۔‘
’سکیورٹی کے مسائل کیا صدر کو بتائے تھے؟‘
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ ’کمیشن کو بتایا گیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن کو سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہو گا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ کے پی کے میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے، امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ نے یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں لائیں؟ اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے، سکیورٹی سے متعلق اعداد و شمار بڑے سنگین ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواباً کہا کہ ’پنجاب کے مطابق کچا آپریشن مکمل ہونے میں چھ ماہ تک لگ جائیں گے، الیکشن کمیشن کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی گنجائش نہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے؟ بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈزکی دستیابی کا ہے۔‘
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔‘
سیاسی درجۂ حرارت کم کرانے کی یقین دہانی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے۔ سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی۔ ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے۔ علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لے کر آگاہ کرنے کا کہا تھا۔ سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں سکتے۔ کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔‘
اس پر عدالت میں موجود تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں۔ ’چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے۔‘