افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں طالبان حکام نے رمضان میں موسیقی نشر کرنے پر خواتین کے زیر انتظام چلنے والے ایک ریڈیو سٹیشن کو بند کر دیا ہے۔
’صدائے بانوان‘ دری زبان میں جس کا مطلب خواتین کی آواز ہے، افغانستان کا واحد ریڈیو سٹیشن ہے جو خواتین کی جانب سے چلایا جاتا ہے۔
اس ریڈیو سٹیشن کا آغاز 10 سال قبل ہوا تھا۔ اس ریڈیو سٹیشن پر عملے کی تعداد آٹھ افراد ہے جن میں سے چھ خواتین ہیں۔
طالبان حکومت کے تحت صوبہ بدخشاں کے اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر معیز الدین احمدی نے کہا کہ صدائے بانوان ریڈیو سٹیشن نے رمضان المبارک کے دوران گانے اور موسیقی نشر کرکے ’امارت اسلامیہ کے قوانین و ضوابط‘ کی متعدد بار خلاف ورزی کی اور اسی خلاف ورزی کی وجہ سے اسے بند کر دیا گیا۔
احمدی نے کہا: ’اگر یہ ریڈیو سٹیشن امارت اسلامیہ افغانستان کی پالیسی پر عمل کرتا ہے اور وہ لوگ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ دوبارہ ایسا کام نہیں کریں گے تو ہم انہیں دوبارہ کام کرنے کی اجازت دے دیں گے۔‘
سٹیشن ہیڈ ناجیہ سروش نے کسی بھی خلاف ورزی کی تردید کرتے ہوئے بندش کو ’بلا ضرورت اور سازش‘ قرار دیا۔
ان کے مطابق: ’طالبان نے ہمیں کہا کہ آپ نے موسیقی نشر کی ہے لیکن ہم نے کسی قسم کی موسیقی نشر نہیں کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سروش نے بتایا کہ جمعرات کو صبح 11:40 بجے وزارت اطلاعات و ثقافت اور وزارت دعوت و ارشاد امر بالمعروف و نهی المنکر ڈائریکٹوریٹ کے نمائندے ریڈیو سٹیشن پہنچے اور اسے بند کردیا۔
انہوں نے کہا کہ سٹیشن کے عملے نے وزارت دعوت و ارشاد امر بالمعروف و نهی المنکر سے رابطہ کیا ہے لیکن وہاں کے حکام نے کہا کہ ان کے پاس اس بندش کے بارے میں کوئی اضافی معلومات نہیں ہیں۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے صحافی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ افغان صحافیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق فنڈز کی کمی یا عملے کے ملک چھوڑنے کی وجہ سے کئی میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہو گئے۔
طالبان نے خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم سمیت ملازمتوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
سرکاری طور پر موسیقی پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم طالبان اور معاشرے میں اسے برا سمجھا جاتا ہے۔
1990 کی دہائی میں اپنے پہلے دور حکومت کے دوران طالبان نے ملک میں زیادہ تر ٹیلی ویژن، ریڈیو سٹیشنز اور اخبارات پر پابندی لگا دی تھی۔