بلال اسلم ایک فیکٹری چلاتے ہیں۔ انہیں خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مال بندرگاہ پر کھڑا ہے، جس سے معاشی مسائل بڑھ گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ صاحب ہر ہفتے فرماتے ہیں کہ اگلے ہفتے معاہدہ ہو جائے گا، اب انہوں نے آئی ایم ایف کے تناظر میں لانگ رینج ایٹمی میزائل پر سمجھوتا نہ کرنے کا بیان دے دیا ہے۔
بلال سوچتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل مسئلہ معیشت نہیں، ایٹمی پروگرام ہے۔ اگر آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہوا تو کیا پاکستان کو ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر ایٹمی اثاثے نہ رہے تو ملک کے دفاع کا کیا بنے گا اور اگر دفاع نہیں رہا تو کاروبار کیسے ہو گا؟
اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف، امریکہ اور یورپ اس کے بدلے پاکستان کو کیا دیں گے۔ دوسری جنگ عظم کے بعد امریکہ نے جاپان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ جاپان ایٹمی طاقت نہیں بنا، جس کا اسے فائدہ ہوا۔
’اگر پاکستان کے تمام قرضے معاف کیے جاتے ہیں اور ملک کو درست معاشی سمت کر طرف گامزن کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے تو ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتہ کرنا کوئی بری ڈیل نہیں ہو گی۔‘
البتہ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر عالمی طاقتوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ہمارے سیاستدان اس کی صحیح قیمت بھی وصول نہیں کر پائیں گے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو دفاعی بجٹ مزید کم کرنے کا کہہ سکتا ہے۔ پاکستان کو بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر گیا تو پھر بھی ایٹمی پروگرام بے سود ہو گا۔ لہٰذا اسے پہلے ہی رول بیک کر دیا جائے۔‘
لاہور چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایٹمی میزائل سے زیادہ انڈسٹری اہم ہے۔ جن ممالک کے پاس ایٹمی میزائل نہیں ہیں وہ بھی ترقی کر رہے ہیں کیوں کہ ان کی انڈسٹری چل رہی ہے۔ اگر ایٹمی اثاثوں کے بدلے آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دے بھی دیتا ہے تو کون سی نئی بات ہو گی۔ وہ قرض کتنے دن چلے گا؟
’70 سالوں سے ہم قرض ہی لے رہے ہیں اور قرض لینے کے بعد کون سا تیر مار لیا ہے۔ آئی ایم ایف کے 22 پروگرامز کے باوجود ہم ملک نہیں چلا سکے۔ جس ملک میں انڈسڑی چلانے کے لیے تیل اور گیس نہ ہو، مشینوں کے سپیئر پارٹس منگوانے کے لیے ڈالرز نہ ہوں اس ملک کے ایٹمی اثاثوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’ایٹم بم ان ملکوں کے لیے اہم ہوتے ہیں جن کے پاس اسے چلانے اور سنبھالنے کے وسائل ہوں۔ یہ اثاثے قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے اہم ہو سکتے ہیں، لیکن دنیا میں ہمارا یہ بھرم بھی ختم ہو چکا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب قوم کو گمراہ کرنے کی بجائے یہ بتائیں کہ ان کے پاس ملک اور انڈسٹری چلانے کے لئے کیا پالیسی ہے؟
’آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور جرائم تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر ایٹمی اثاثوں پر ہی سمجھوتا کرنا ہے تو پھر آئی ایم ایف کی دوسری شرائط ماننے کی کیا ضرورت ہے۔‘
البتہ اس حوالے سے ماہرِ معشیت فرخ سلیم صاحب کا تجزیہ مختلف تھا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رضا ربانی کا سوال پوچھنا اور اسحاق ڈار صاحب کا جواب دینا غیر ضروری تھا۔ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ سیاست ہے اور یہ بورڈ لیول پر ممکن ہے، سٹاف لیول پر نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس طرح کے مطالبات امریکہ کئی سالوں سے کر رہا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کے محفوظ ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ اگر پاکستان پر یہ دباو ڈالا گیا تو کیا ریجن کے دوسرے ممالک بھی اس پر عمل کریں گے؟ کیا چین، بھارت، روس ایٹمی اثاثوں سے دست بردار ہوں گے۔ یہ کام کسی اصول پر ہوتے ہیں۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسحاق ڈار کا اس موضوع پر بات کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ اپنی دکان چمکانے اور ناکامی چھپانے کے لیے بیان دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ خلیجی ممالک سے تحریری ضمانت حاصل کرنا ہے جو یہ کر نہیں پا رہے ہیں۔ پاکستان فوکس کرے کہ اس نے چھ ارب ڈالر کی فنانسگ کیسے حاصل کرنی ہے۔ بہت سی شرائط پوری ہو چکی ہیں جس دن ضمانت ملے گی قرض بھی مل جائے گا۔ لیکن اگر حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو کسی اور ملک کے ذریعے ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنے کا مطالبہ سامنے آ بھی سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف نے آج تک براہ راست ایسا کوئی مطالبہ کسی بھی ملک سے نہیں کیا ہے۔ لیکن جب آپ امریکہ سے مدد مانگنے جاتے ہیں تو وہ اس کے بدلے آپ سے کچھ بھی مطالبہ کر سکتا ہے کیوں کہ آئی ایم ایف ڈیل میں امریکہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ فی الحال ڈار صاحب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور اس پر زیادہ بات نہیں کی جانی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو چین یہ نہیں مانے گا۔ شاید اسی لیے سیکریٹری خزانہ چین جا رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق آرمی چیف بھی اگلے ہفتے چین روانہ ہو سکتے ہیں۔‘