جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہفتے کو حافظ قرآن 20 اضافی نمبر کیس میں تفصیلی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین اور قانون کسی عدالت کے چھ ججوں کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ خود کو سارا اختیار دے دیں، ازخود نوٹس کیس میں 29 مارچ کا حکم چھ ججوں کا نوٹ منسوخ نہیں کر سکتا، متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔‘
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نو صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ میں، جو اب ویب سائٹ پر موجود نہیں، مزید کہا گیا کہ عشرت علی وفاقی حکومت کے ملازم ہیں، جنہیں بطور رجسٹرار سپریم کورٹ بھیجا گیا تھا اور اسلام آباد نے انہیں تین اپریل کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا، لیکن عشرت علی نے وفاقی حکومت کے حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے خود کو چار اپریل کو غلط طریقے سے رجسٹرار ظاہر کیا۔
’آئین بینچ یا ججوں کو یہ اختیارِ سماعت نہیں دیتا کہ وہ سپریم کورٹ کے کسی حکم کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں، مقدمہ نمبر چار کی سماعت کے لیے نام نہاد لارجر بینچ کی تشکیل غلط تھی، چھ رکنی لارجر بینچ کو (آئینی) عدالت کی حیثیت حاصل نہیں تھی، لارجر بینچ کوئی حکم نامہ جاری نہیں کر سکتا تھا، چار اپریل، 2023 کا سپریم کورٹ کا حکم نامہ نہیں کہلا سکتا، اس کا کوئی آئینی اور قانونی اثر نہیں ہے، قانونی طور پر یہ بات غلط ہو گی کہ اسے حکم نامہ کہا جائے، اس لیے اس کو چار اپریل کا نوٹ کہا جائے گا۔‘
نوٹ میں مزید کہا گیا: 'عشرت علی رجسٹرار نے 4 اپریل کو اپنے دستخط سے لارجر بینچ بنانے اور سماعت 2 بجے مقرر کرنے کی فہرست جاری کی، لسٹ جاری کرتے ہوئے کہا گیا یہ چیف جسٹس پاکستان کے حکم پر لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے، دس اپریل 1973 کے آئین کو قومی اسمبلی کے 200 میں سے 196 ارکان کی اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا، اس کے خلاف ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا تھا، آئین کا استناد اور اس کی پائیداری کا انحصار جمہوری بنیادوں پر ہے، یہ دستاویز ہی ہے جس نے وفاق کو باہم جوڑے رکھا ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’فرض کریں سپریم کورٹ کسی قتل کا مقدمہ خود سننے کا فیصلہ کر لیتی ہے، پھر ملزم کو سزا دے دیتی ہے یا بری کر دیتی ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے اس اقدام کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا، نہ تو آئین نہ ہی قانون نے سپریم کورٹ کو فوجداری مقدمہ چلانے کا اختیارِ سماعت دیا ہے، یہ مقدمہ کوئی سیشن جج چلا سکتا ہے، جو سپریم کورٹ کے ججوں سے دو درجے نیچے ہے۔
’اسی طرح فیملی کورٹ کا کوئی جج عائلی قانون کے متعلق امور کا فیصلہ کر سکتا ہے، یہ اختیارِ سماعت سپریم کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔‘
چھ رکنی بینچ نے کیا فیصلہ دیا تھا؟
چار اپریل کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے لکھا تھا: ’ازخود نوٹس کی کارروائی کا اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ نےفیصلے میں کہا تھا کہ میڈیکل کے طلبا کو 20 اضافی نمبروں کے کیس میں بنچز کی تشکیل پر حکم جاری کرکے ازخود کارروائی کا اختیار استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرکے پانچ رکنی بنچ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے جاری سرکلر میں درست وضاحت کی گئی تھی۔
سرکلر کے مطابق اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دیگر احکامات کا ازخود نوٹس کیسز پر اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ کیا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
29 مارچ کو سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو میڈیکل ڈگری میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریری فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم ہونے تک از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں ہونا چاہیے اور جب تک بینچز کی تشکیل سے متعلق چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم نہیں ہوتی تمام متعلقہ مقدمات کو موخر کیا جائے۔
رجسٹرار کا سرکلر
اس کے بعد 31 مارچ کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے سرکلر جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے فیصلے میں آرٹیکل 184/3 سے متعلق آبزرویشن ازخود نوٹس کے زمرے میں نہیں آتی۔
’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے جو فیصلہ دیا وہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ ہے جبکہ سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پہلے ہی اس معاملے کو طے کر چکا ہے کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہی استعمال کر سکتے ہیں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسی کا خط
رجسٹرار کے سرکلر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے انہیں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھا۔
عشرت علی کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے فوری طور پر عہدے سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ رجسٹرار کے پاس جوڈیشل آرڈر کالعدم قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
’چیف جسٹس بھی جوڈیشل آرڈر کے خلاف کوئی انتظامی آرڈر جاری نہیں کر سکتے۔‘
سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار کو مزید تباہ نہ کرنے دیا جائے، بہتر سمجھیں تو رجسٹرار کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے۔‘
اس کے بعد وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں حکومت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کی منظوری دی اور بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔
خیبر پختونخوا بار کونسل
خیبر پختونخوا بار کونسل نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے سپریم کورٹ آف پاکستان میں آمرانہ انداز پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا بار کونسل کے نائب صدر زر بادشاہ خان نے ایک بیان میں کہا: ’جسٹس اطہر من اللہ کے عدالتی حکم نے واضح کر دیا ہے کہ کیس کا فیصلہ 4، 3 کی اکثریت سے ہوا تھا، جبکہ چیف جسٹس نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر غلط بیانی سے کام لیا اور عدالتی نظام کو داغدار کیا اور عدالتی ضابطہ اخلاق اور اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی۔‘