چین نے تائیوان کی صدر سائی اِنگ وین کے دورہ امریکہ پر مشتعل ہو کر تین روزہ فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ مشقیں ’جوائنٹ سورڈ‘ کے نام سے کی جارہی ہیں۔
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چینی فوج نے تائیوان کے ارد گرد سمندر میں بحری جہاز، لڑاکا طیارے اور میزائل تعینات پہنچا دیے ہیں تاکہ ’تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کو سخت انتباہ ‘ بھیجا جا سکے۔
ہفتے کو شروع ہونے والی فوجی مشقوں میں جزیرے کے ارد گرد گشت اور ’اہم اہداف پر مشترکہ ٹھیک ٹھیک حملوں‘ سمیت تائیوان کے ارد گرد ’گھیراؤ اور ممکنہ حملہ‘ روکنا شامل ہے۔
چین کے سرکاری سی سی ٹی وی نیوز کے مطابق ’درجنوں جے 18 اورجے 10 سی لڑاکا طیاروں کو آبدوز شکن طیاروں کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔‘
سرکاری گلوبل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ چین اپنا پی ایچ ایل 191 راکٹ لانچر سسٹم اور زمین سے چلایا جانے والا بحری جہاز شکن میزائل وائے جے 12 بی بھی مشقوں میں لایا ہے۔
دوسری جانب تائیوان کی وزارت دفاع نے کہا کہ ہفتے کو جزیرے کے ارد گرد نو چینی جنگی جہازوں اور 58 طیاروں کی موجودگی کا پتہ چلا۔
وزارت کا کہنا تھا کہ نگرانی اور جاسوسی کے مشترکہ نظام کی مدد سے چینی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ وزارت نے کہا کہ مقامی وقت کے مطابق دن 12 بجے جن چینی جنگی طیاروں کا پتہ چلا ان میں جیٹ اور بمبار طیارے شامل ہیں۔
تائیوان میں 70 سال سے زائد عرصے سے قائم الگ حکومت کے باوجود چین کی کمیونسٹ حکومت اس جزیرے کو اپنی سرزمین کا حصہ سمجھتی ہے اور اس نے ایک دن اسے دوبارہ حاصل کرنے کا عزم ظاہر کر رکھا ہے۔
بیجنگ تائیوان اور غیر ملکی حکومتوں کے درمیان کسی بھی باضابطہ رابطے پر برہمی کا اظہار کرتا ہے، جس میں تائیوانی صدر کا امریکہ کا حالیہ دورہ بھی شامل ہے جہاں انہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کیون میک کارتھی اور رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے سیاست دانوں کے ایک وفد سے بھی ملاقات کی۔
قبل ازیں چین کی وزارت خارجہ نے اس ہفتے کہا تھا کہ وہ اس دورے کے خلاف ’ٹھوس اور موثر اقدامات‘ کرے گا۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں سیاسیات کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر جا ایان چونگ نے کہا کہ حالیہ مشقیں ’تائیوان کو نشانہ بنانے والے دباؤ کے وسیع نمونے کا حصہ ہیں۔‘
چونگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بڑے دوروں سے بیجنگ کو تائی پے، واشنگٹن یا دیگر ملکوں پر الزام لگانے کا موقع ملتا ہے۔‘
تائیوان کی صدر سائی انگ وین منگل کو کیلیفورنیا پہنچی تھیں لیکن بیجنگ نے مشقیں شروع کرنے کے لیے ان کی تائیوان واپسی تک انتظار کیا۔
چینی قیادت کو اس ہفتے نازک صورت حال کا سامنا ہے کیوں کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان دیئر لیین چین کا دورہ کر چکے ہیں جب کہ چینی صدر شی جن پنگ یورپ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
سنگاپور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز میں چین کے بارے میں محقق جیمز چار نے اے ایف پی کو بتایا کہ بیجنگ نے ممکنہ طور پر اہم یورپی شخصیات کی روانگی کا انتظار کرنے کے بعد اپنی طاقت کا مظاہرہ شروع کیا کیوں کہ ’بیجنگ مغرب کے ساتھ دوبارہ رابطوں کی کوشش کر رہا ہے۔‘
جیمز چار نے کہا کہ فوجی آپریشنز جاری سفارتی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔
تائیوانی شہری کیا سمجھتے ہیں؟
38 سالہ ڈینٹسٹ لیانگ یو چن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’صدر سائی کے مختلف ممالک کے دورے سے بین الاقوامی سطح پر تائیوان کے بارے میں ہر کسی کی آگاہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ البتہ اس بات سے بچا نہیں جا سکتا کہ چین کی طرف سے کچھ زبانی اور فوجی دھمکیاں دی جائیں گی لیکن میرا خیال ہے کہ چوں کہ زبانی اور فوجی دھمکیاں لمبے عرصے سے چلی آ رہی ہیں اس لیے ان کا ختم ہونا ناممکن ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
34 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر چو وان یو کا کہنا تھا: ’میں ہمیشہ منصوبہ بندی کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر میرے بچے کے پاس بھی غیر ملکی پاسپورٹ ہے۔ اس لیے میں بہت کچھ سوچ رہا ہوں۔ بہت پہلے سے۔‘
صحافی کے اس سوال پر کہ ایسا جنگ کے خوف کی وجہ سے ہے؟ چو وان یو کا کہنا تھا کہ ’ہاں مجھے لگتا ہے کہ جنگ ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جب چین زیادہ پر امن تھا، اب جیسا نہیں کہ جب کووِڈ کے دوران سخت لاک ڈاؤن جاری ہے، میں نے سوچا کہ تائیوان کا چین میں شامل ہونا میرے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں کرے گا۔ لیکن اب ہانگ کانگ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ وہ (چین) ایک قسم کا انتباہ جاری کر رہا ہے۔ ‘
اسی طرح 44 سالہ آرکیٹکٹ سو وین فینگ نے کہا: ’تائیوان کے چین کا حصہ بننے کے بارے میں مسلسل بات کرنا، میرے خیال میں، کافی غیر ضروری ہے، یا یوں کہیے کہ اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسری طرف (چین) فوجی کارروائیوں کی دھمکی دیتے ہوئے تائیوان کو اپنا حصہ بنانے کی بات کر رہا ہے جو میرے خیال میں بالکل بے معنی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کو موجودہ طریقے سے گزار سکتے ہیں اور تائیوان کو بین الاقوامی سطح پر بڑا مقام اور حیثیت دلوا سکتے ہیں تو میرے خیال میں یہ زیادہ اہم ہے۔‘