دو عالمی انسانی حقوق کے گروپس نے جمعرات کو کہا کہ ایران نے گذشتہ سالوں کے مقابلے میں 2022 کے دوران احتجاج کو ’خوف سے دبانے‘ کے لیے 75 فیصد زیادہ سزائے موت پر عمل درآمد کیا۔
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) اور پیرس میں قائم ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی (ای سی پی ایم) نے ایرانی حکومت کو ’ایگزیکیوشن مشین‘ قرار دیتے ہوئے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔
دونوں گروپس کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف گذشتہ سال ایران نے کم از کم 582 افراد کو سزائے موت دی اور یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ تھی۔ 2021 میں یہ تعداد 333 تھی۔
سزائے موت میں اضافہ گذشتہ سال ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد ملک گیر مظاہروں کے بعد دیکھا گیا۔ مہسا امینی کو خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ایرانی حکام نے مظاہروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا، ہزاروں افراد کی گرفتاریوں کے ساتھ چار افراد کو احتجاج سے متعلق مقدمات میں سزائے موت دی گئی جن سے بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری موغدام نے کہا کہ بین الاقوامی ردعمل سے ایران مظاہروں سے متعلق مقدمات میں سزائے موت سے تو پیچھے ہٹ گیا لیکن انہوں نےعام شہریوں کو ڈرانے کے لیے دیگر الزامات کے تحت پھانسیوں میں اضافہ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’مظاہرین کے خلاف سزائے موت پر بین الاقوامی ردعمل نے ایران کے لیے ان کی پھانسیوں کو آگے بڑھانا مشکل بنا دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کا حل نکالنے کے لیے اور لوگوں میں خوف پھیلانے کے لیے ایرانی حکام نے غیر سیاسی الزامات کے مقدمات میں سزائے موت کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احتجاج سے متعلق الزامات کے تحت چار افراد کو پھانسی دیے جانے کے بعد مزید ایک سو مظاہرین کو موت کی سزا سنائے جانے یا سزائے موت کے الزامات کا سامنا کرنے کے بعد انہیں بھی پھانسی کا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں مظاہروں کے شروع ہونے کے بعد منشیات سے متعلق مقدمات میں سزائے موت کی تعداد میں تیزی سے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انسداد منشیات کے قانون میں 2017 کی ترامیم کی وجہ سے ایران میں 2021 سے پہلے تک سزائے موت کی مجموعی تعداد میں کمی دیکھی گئی تھی۔
مظاہروں کے آغاز کے بعد سزائے موت پانے والوں میں سے نصف سے زیادہ اور 2022 میں ریکارڈ کی جانے والی 582 سزائے موت میں سے 44 فیصد کا تعلق منشیات کے مقدمات سے تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت کی یہ تعداد 2021 میں دوگنا اور 2020 میں منشیات سے متعلق سزائے موت کی تعداد سے 10 گنا زیادہ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی حقوق کے گروپس نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) اور اس کے ڈونرز کی جانب سے ایران میں سزائے موت کے اس ’ڈرامائی اضافے‘ پر خاطر خواہ ردعمل کا مظاہرہ نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔
ای سی پی ایم کے ڈائریکٹر رافیل چینوئیل حازان نے کہا: ’ان اصلاحات (2017 کی) کو تبدیل کرنے پر یو این او ڈی سی اور ڈونر ممالک کی جانب سے ردعمل کا فقدان نے ایرانی حکام کی غلط طور پر حوصلہ افزائی کی۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سنی مسلم بلوچ اقلیت کے ارکان پورے ملک میں دی جانے والی سزاؤں کا 30 فیصد ہیں جب کہ ان کی مجموعی تعداد ایران کی آبادی کا صرف دو سے چھ فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نسلی اقلیتی کردوں اور عربوں کی سزائے موت کی تعداد بھی غیر متناسب تھی خاص طور پر منشیات کے جرائم کے لیے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سزائے موت ایک ایران کی ’منظم امتیازی سلوک‘ کی پالیسی کا حصہ ہے اور ایران کی نسلی اقلیتوں کو وسیع جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ سزائے موت تمام پھانسیوں کے 49 فیصد یعنی قتل کے الزامات میں دی گئیں جو کہ 15 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مظاہرین ماجدرضا رہنوارد سمیت دو افراد کو سرعام پھانسی دی گئی۔ سزائے موت پانے والوں میں کم از کم تین نابالغ ملزم بھی شامل تھے جب کہ کم از کم 16 خواتین کو بھی پھانسی دی گئی۔