’دادا اس برتن سے وضو کرتے تھے۔ تم آؤ گے تو میں تمہیں دوں گی۔‘
امی نے دو تین سال پہلے کہا تھا کہ ان کے پاس دادا کا ایک بہت پرانا برتن پڑا ہوا ہے جس سے وہ وضو کیا کرتے تھے۔ پچھلی بار گھر گیا تو وہ برتن انہوں نے مجھے دے دیا۔
بہت وقت گزرنے کی وجہ سے وہ برتن کافی گہری رنگت کا ہو چکا تھا لیکن اس پہ کچھ لکھا ہوا اب بھی نظر آتا تھا۔
اسلام آباد آیا تو میں نے اسے ایک پرانے صندوق میں رکھ دیا اور دوبارہ دفتر آنا جانا شروع ہو گیا۔
پچھلے ہفتے ایک دن چھٹی کا آیا تو یونہی کچھ ڈھونڈنے کو صندوق کھولا، اس میں برتن وہیں سامنے پڑا تھا۔
سوچا اسے صاف کروں، دیکھوں، کیا لکھا ہوا ہے۔
تانبے کا وہ برتن جب صاف کیا تو اس پہ بسم اللہ لکھی ہوئی نظر آنے لگی۔ میں سمجھا قرآن کی آیتیں لکھی ہوں گی تو مزید دھیان سے اسے صاف کرنے لگا۔
جو کچھ بھی لکھا تھا مکمل پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ سِرکہ ایک صاف کپڑے پر لگایا اور برتن دوبارہ چمکانا شروع کر دیا۔
اب بسم اللہ کے بعد جو کچھ تھا وہ آیتیں بہرحال نہیں تھیں، اس میں بہت سارے نام آتے تھے۔
برتن جب مکمل اپنے اصل رنگ میں آ گیا تو میں نے پڑھنے کی کوشش کی۔
نام اس طرح سلسلہ وار تھے جیسے حدیثوں کی روایت میں آخری سند تک مکمل پہنچتے ہیں۔
اب میں غور سے پڑھنا شروع ہو گیا۔ 1261 ہجری کی تاریخ بھی آخر میں دی ہوئی تھی۔ یہ سال عیسوی کیلنڈر کے حساب سے 1845 بنتا ہے۔
انٹرنیٹ پہ جا کے ڈھونڈنا شروع کیا تو اس شکل کا ایک برتن بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
کافی تلاش کرنے کے بعد ایک ویب سائٹ پہ اس شکل کا جست سے بنا برتن دکھائی دیا۔
وہاں جا کے تفصیل دیکھی تو جو حروف اس پہ لکھے تھے وہ کچھ اپنے والے سے ملتے جلتے تھے۔
ان حروف کو ٹائپ کیا اور پھر ڈھونڈنا شروع کیا تو تھوڑی دیر میں علم ہوا کہ اس برتن کو ’مُدِ نبوی‘ کہتے ہیں۔
پرانے دور میں ہمارے یہاں بھی فصلوں کی کٹائی پر لین دین کے لیے مخصوص پیمانے استعمال ہوتے تھے۔
تولنے کی بجائے ان برتنوں میں جتنا غلہ سما جاتا، وہ برتن کے حجم کے حساب سے شمار کیا جاتا تھا۔
ایک ’مُدِ نبوی‘ سے ناپے گئے غلے کا اگر وزن کیا جائے تو 524.880 گرام بنتا ہے۔
یہ تحقیق اپنی کتاب ’اسلامی اوازن‘ کے لیے فاروق اصغر صارم نے کی۔
تو مختلف احادیث اس حوالے سے ہیں کہ زکوۃ اور فطرانہ جب دیا جائے تو کتنے مُد کا حساب رکھا جائے یا حضور ﷺ کے وضو اور غسل کے بارے میں ہیں کہ اس میں کتنے مُد استعمال ہوتے تھے۔
’مُد‘ کا سائز کیسے طے ہو۔ عراق سے بھی ایک مُد تاریخ میں نظر آتا ہے جو ’مُدِ نبوی‘ سے تھوڑے زیادہ حجم کا ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اکثر علما ’مُد حجازی‘ کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ یہ عین اسی حجم کا ہے جو حضور ﷺ کے زمانے میں مکہ یا مدینے والے استعمال کیا کرتے تھے۔
’مُدِ نبوی‘ کی پیمائش بالکل ویسی رکھنے کے لیے کہ جیسی خود حضور ﷺ کے زمانے میں تھی، اسے سند کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔
’مُدِ نبوی‘ کی جو نقل میرے پاس دادا سے پہنچی اس کی سند صحابی حضرت زید بن ثابت تک کی ہے، یعنی یہ مُد عین اسی مُد کے برابر ہے جو حضور ﷺ استعمال کیا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دادا کے پاس ’مُدِ نبوی‘ کیسے پہنچا؟ اس بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ انہیں اپنے والد سے ملا ہو گا یا وہ خود اوائل جوانی کے دوران لکھنئو یا ایران سے لائے ہوں گے۔
دادا کی غیر مطبوعہ سوانح کے مطابق ان کے والد یعنی میرے پردادا کی وفات 18 مارچ، 1918 کو طاعون کی وبا میں ہوئی۔
دادا کے الفاظ میں وہ ’زیارت مدینہ اور حج بیت اللہ سے مشرف تھے۔‘
عین ممکن ہے یہ مُد میرے پردادا حج کے دوران خود ہی خرید کے لائے ہوں۔
دوسرا امکان اس چیز کا ہے کہ دادا نے اسے لکھنئو یا ایران سے خریدا ہو گا۔
مذکورہ سوانح میں انہوں نے پانچ جنوری، 1943 تک کے حالات لکھے ہیں اور اس دوران ان کے مطابق وہ مدرسہ فرنگی محل لکھنو بھی داخل رہے اور بعد میں قم جا کے بھی دینی تعلیم حاصل کی۔
اسی سوانح میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ پاک اور نجس اشیا کے بارے میں حد سے زیادہ احتیاط پسند تھے اور دن کا بیشتر حصہ اس دھیان میں صرف رہتا تھا۔