پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے کہا ہے کہ ’نگران حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہو سکتی۔ پنجاب میں 23 اپریل سے ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔‘
جب کہ آئینی طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتیں دونوں صوبوں میں انتخابات اور منتخب حکومتوں کے قیام تک قائم رہیں گی، کیونکہ 90 روز کی مدت گزرنے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 48(5)، 91(8)، 58(B)، آرٹیکل 224(A) اور آرٹیکل 223 کے مطابق نگران حکومتوں کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق ہوئی ہے، مگر اس آرٹیکل میں ان کی مدت کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔
چنانچہ یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومت کے قیام تک دونوں صوبوں کی نگران حکومتیں قائم رہیں گی۔
جہاں تک 90 روز کے بعد نگران حکومت کی مدت ختم ہونے کا تعلق ہے، اس کا حکومت کے مینڈیٹ کی معیاد سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا صوبائی حکومتوں کے لیے نیا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔
بعض سیاسی رہنما نگران حکومتوں کی مدت کے تعین کے حوالے سے جو حوالہ جات دے رہے ہیں اس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
نگران حکومتوں کے قیام کے لیے مختلف ممالک میں مختلف طریقہ کار رائج ہے۔ بنگلہ دیش میں نگران سیٹ اپ تقریباً تین سال تک وقفے سے جاری رہا۔ 2006 میں خالدہ ضیا کی حکومت تحلیل ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ لایا گیا، جسے ایک سال کے بعد حسینہ واجد کی تحریک پر ختم کر کے ملک میں ایمرجنسی کا انعقاد کرتے ہوئے نگران حکومت قائم کی گئی، جو فروری 2009 تک رہی۔
حسینہ واجد نے وزیراعظم مقرر ہونے کے بعد 2010 میں قومی اسمبلی کے ذریعے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے نگران حکومت کے قیام کو آرٹیکل کے خلاف کروا دیا اور اب بنگلہ دیش میں نگران حکومت کا تصور نہیں ہے۔
اسمبلی کی تحلیل کے بعد وزیراعظم ہی اپنی نگرانی میں الیکشن کا انعقاد کرواتا ہے۔ پاکستان میں بھی 1990 تک جتنے بھی انتخابات ہوئے نگران حکومت کے بغیر ہی ہوتے رہے۔
پاکستان میں نگران حکومت کا قیام 1993 میں شروع کیا گیا جب دو بڑی سیاسی جماعتوں کی باہمی سیاسی کشمکش کی وجہ سے نگران وزیراعظم کے لیے امریکی شہریت کے حامل معین الدین قریشی کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا اور پاکستان آمد پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہی انہیں قومی شناختی کارڈ فراہم کیا گیا تھا۔
تحریک انصاف نے جو ایڈمنسٹریٹرز مقرر کرنے کی تھیوری دی ہے، اس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 224 میں ردوبدل کر کے ایڈمنسٹریٹر کے تقرر کے لیے کوئی ترامیم رد کر سکے۔
لوکل گورنمنٹ کے ادارے جب تحلیل ہو جاتے ہیں تو صوبائی حکومتیں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات تک ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتی ہیں جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اپ آرٹیکل 224(A) کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے۔ آئین میں ایڈمنسٹریٹرز کے تقرر کا ذکر نہیں ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی آئین سے ماورا ایسی تشریح کرنے کا مجاز نہیں ہے اور نہ ہی صدر مملکت، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس قسم کی ہدایت دینے کا کوئی آئینی اختیار رکھتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجہ نے چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم پاکستان کو انتخابی قوانین میں ترامیم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 اور 58 میں ترامیم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بااختیار اور خودمختار بنایا جائے کیونکہ عدالتی فیصلوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئینی اختیارات سے محروم کر دیا ہے۔
آئین کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان واحد فیصلہ کرنے والا ادارہ ہے، لیکن حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ الیکشن کے لیے فیصلہ کرنے والا ادارہ عدالتی فیصلوں کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور الیکشن کمیشن کی رِٹ ختم ہونے پر بیورو کریسی الیکشن کمیشن کے احکامات کو نظرانداز کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئندہ انتخابات میں بیورو کریسی اور الیکشن کا عملہ کسی اور طرف دیکھ رہا ہے اور الیکشن کمیشن کی اہمیت ان کی نظروں میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 218(3) سے متصادم ہے۔
عدالتی بحران کا نتیجہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے ارکان میں اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں اور پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو احکامات جاری کیے وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے نظرانداز کر دیے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو احکامات جاری کیے وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے نظرانداز کر دیے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نیشنل سکیورٹی کونسل کی اِن کیمرہ میٹنگ کے بعد اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ طاقت کا محور عوام ہیں، آئین کے تحت اختیارات پارلیمنٹ اور قوم کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہو گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے احکامات کو بروئے کار لانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 190 کا بھی سہارا لینے سے قاصر رہے گی، جس کے تحت پاکستان کی تمام ایگزیکٹو فورسز سپریم کورٹ آف پاکستان کے تابع ہیں۔
جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کو پارلیمنٹ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے تو آئین کا آرٹیکل 190 بھی غیر مؤثر ہو کر رہ گیا ہے اور توہین عدالت کسی فرد یا ادارے پر لگانے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہاں زیرسماعت مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان عمران خان، فواد چوہدری اور اسد عمر کے خلاف توہین الیکشن پر آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ دس کے تحت سزا سنا دیتا ہے تو اس کی اپیل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہی دائر کی جائے گی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی ملک کے آئینی ادارے کے تحفظ کا خیال رکھنا ہو گا۔
ان حالات میں میرا تجزیہ یہ ہے کہ ملک کا نظام بظاہر اس طرح نہیں چل سکتا لہٰذا سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ معاملات کو سنجیدگی سے لیں اور آئینی ادارے اپنی حدود کو خود متعین کر کے آئین کے مطابق فیصلے کریں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔