پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اتحادی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بذات خود شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت سے بڑا مسئلہ انتخابات کا ہے۔
اردو نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے کہا: ’میں نے ان (حکومت) کے ساتھ نہیں بیٹھنا، ہماری ٹیم بیٹھے گی۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا: ’گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کو چھوڑیں، پہلے الیکشن کی طرف آئیں۔ اگر آپ الیکشن ہی نہیں کروا سکتے تو کون سا ڈائیلاگ کرنا ہے کسی نے کس سے۔‘
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 23 مارچ کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر عمران خان گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کرانا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں سکیورٹی چیلنجز اور شدید معاشی بحران درپیش ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اکٹھے انتخابات میں صرف ایک اضافی بیلٹ پیپر درکار ہوتا ہے۔ ’کیا یہ بھلے والی بات نہیں کہ انتخابات ایک ساتھ ہوں؟‘
تاہم عمران خان نے اس پیشکش کو بظاہر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ 90 روز میں الیکشن کروانا ہے۔ اگر آپ آئین کے اوپر نہیں چل رہے تو واویلا کس پر کرنا ہے۔‘
پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا: ’اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں جنگل کا قانون ہے۔ آئین اور قانون ختم ہوگیا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ فیصلہ کریں گے کہ کون سا فیصلہ میں نے ماننا ہے اور کون سا نہیں ماننا۔‘
بقول عمران خان: ’جب سپریم کورٹ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے کر شہباز شریف کو (وزیراعظم) بنا دیا، ہم نے تو قبول کرلیا، تب سپریم کورٹ ٹھیک تھی، آج وہ ازخود نوٹس لے رہے ہیں اور ان کو لگ رہا ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ جائے گا تو اب یہ اسے متنازع بنا رہے ہیں۔ یہ ان کی تاریخ ہے۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ کے ساتھ ساری قوم کھڑی ہوگی۔‘
عمران خان نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب پاکستان کے حکمران اتحاد نے یکم اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی ہونے سے متعلق درخواستیں سننے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر عدالتی کارروائی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکن بینچ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن کے التوا سے متعلق درخواستوں کی سماعت پیر (تین اپریل) سے دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ کے ججز میں اختلاف رائے اور تقسیم کے حوالے سے عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ’اس میں نواز شریف کا بڑا ہاتھ ہے، انہوں نے پہلے بھی 1997 میں اپنے مفاد کے لیے سپریم کورٹ کو تقسیم کیا تھا، ابھی بھی کر رہے ہیں اور ان کی بیٹی ججز کے خلاف بیان دے رہی ہیں۔ حیثیت کیا ہے ان کی۔ آئین کی تشریح کا فیصلہ تو سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سب کو پتہ ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں (الیکشن) آگے چلے جائیں تو سپریم کورٹ نے تو 90 دن کا کہنا ہی ہے۔ آپ ہیں کون کہنے والےکہ ہم نہیں مانتے۔‘
حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے اکتوبر سے قبل انتخابات سے متعلق سوال پر کہا تھا کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل اور اس کے 90 روز بعد انتخابات ہونے چاہییں۔
انٹرویو کے دوران اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ’اگر الیکشن (کے سلسلے) میں (رابطہ) کرنا چاہ رہے ہیں تو ہم کسی سے بھی رابطہ کرلیں گے۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین نے انٹرویو کے دوران سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ انہوں نے ان کی جماعت پر بڑا ’ظلم‘ کیا۔
بقول عمران خان: ’جنرل باجوہ نے ہمارے اوپر بڑا ظلم کیا۔ ان کی ایجنسیاں ہمارے پیچھے ہیں۔۔۔امید یہ کر رہے تھے کہ وہ جائیں گے تو کچھ تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پمارے اوپر اس سے زیادہ تشدد شروع ہوگیا ہے۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین نے سابق آرمی چیف پر اپنی ’حکومت گرانے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ’امریکیوں کو بھی میرے خلاف کردیا۔‘
گذشتہ برس اپریل میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخلی کے بعد عمران خان نے متعدد بار اس سارے معاملے میں امریکی سازش (سائفر) کا ذکر کیا ہے، تاہم حکومت اور سکیورٹی ادارے اس کی تردید کرچکے ہیں۔