سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنے تحریری حکم نامے میں حکومت کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کا تقاضہ ہے کہ 27 اپریل 2023 سے پہلے مناسب اقدامات کیے جائیں اور خاص طور پر اس تاریخ تک پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کی رقم کی فوری طور پر فراہمی یقینی بناتے ہوئے کمیشن کو فراہم کی جائے۔
عدالت نے سات صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا کہ ’جو کوئی فریق آئینی مقصد کو پورا نہیں کرے گا اس کی طرف سے آئینی فرض اور ذمہ داری کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔‘
تحریری حکم نامے کے مطابق ’عدالت کے احکامات کی نافرمانی اور انحراف خود سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی کہ وہ وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کی توجہ معاملے کی سنگینی کی طرف مبذول کرائیں تاکہ اس معاملے کا جلد از جلد تدارک کیا جائے۔‘
عدالت نے وزارت دفاع کی جانب سے دائر درخواست جس میں چار اپریل کے حکم کو واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی، کو ناقابل سماعت قرار دے دیا۔
کابینہ کی جانب سے فنڈز کے اجرا کے معاملے پر عدالت نے کہا کہ ’آئین کے ذریعہ تصور کردہ پارلیمانی جمہوریت کے نظام میں حکومت کو ہر وقت قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ چونکہ وزیر اعظم کے عہدے پر فوقیت حاصل ہے، اس لیے وزیر اعظم کو ہر وقت قومی اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔‘
’اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک امکان یہ ہے کہ حکومت اور وزیر اعظم قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، لیکن اٹارنی جنرل نے واضح طور پر کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کو ہر وقت قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا اور ہے۔‘
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ موجودہ مقاصد کے لیے، ہم اٹارنی جنرل کے اس بیان کو قبول کرتے ہیں۔‘
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی جانب سے فنڈز جاری کرنے کے مطالبے کو مسترد کرنے کے سنگین آئینی مضمرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی متفرق درخواستوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہونے والی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ملک میں انتخابات ایک ساتھ کروانے کی متفرق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سماعت کرنے والے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’آپ ہمارا نقطۂ نظر سمجھ چکے ہیں، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے اور اس کے سنگین نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔‘
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوجی افسران کو بتایا کہ دوران سماعت سکیورٹی کا معاملہ نہیں بتایا گیا، ان کو بتایا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ہو چکا ہے، پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔‘
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا آئین بالادست نہیں ہے؟ افواج نے ملک کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں افواج پاکستان کا سب کو شکر گزار ہونا چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی، چار اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے چار تین کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا معاملہ آیا۔ بائیکاٹ کرنے والے درخواست گزاروں نے سکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروا لیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انتشار پھیل جائے گا، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، ٹی وی پر سنا ہے کہ وزرا کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔
’سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو معاملے پر مذاکرات کی پیش رفت کا بتایا کہ ’کل بلاول بھٹو، وزیراعظم سے ملے تھے، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہو رہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے، دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔‘
یہ سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی۔ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا، 90 دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔ آئین کے مطابق 90 دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں۔ آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کریں گے۔ آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دن انتحابات کرانے کی درخواستوں پرسیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، پانچ دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں پانچ دن کا وقت بہت ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر زور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا، مذاکرات کی بات ہے تو آٹھ اکتوبر پر ضد نہیں کی جا سکتی، یک طرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہو گا۔‘
’تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا‘
اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ’عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کو روسڑم پر بلا کر استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے؟
اس پر فیصل چوہدری نے چیف جسٹس سے کہا، ’قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا، قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں، کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں؟ سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہو سکتا ہے۔ ‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصل چوہدری سے کہا کہ ’پارٹی قیادت سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔ ممکن ہے عدالت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو طلب کرے، فریقین کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔‘
’سکیورٹی کے مسائل تو پہلے بھی تھے‘
چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ ’سکیورٹی کے مسائل پہلے انتخابات میں بھی تھے، 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے، 2007 میں بھی تو بےنظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی، 2013 میں بھی دہشت گردی تھی، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہو سکتے، کیا ضمانت ہے کہ آٹھ اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے، 1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ایک ساتھ الیکشن میں تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔ آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’گذشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہو ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔‘
اس موقعے پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟‘
اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’سکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، سال 2001 سے سکیورٹی ادارے سرحدوں پر مصروف ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مولا ہمیں ہمت دے کہ صحیح فیصلے کریں‘
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’مولا ہمیں ہمت دے کہ صحیح فیصلے کریں، اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرے۔ جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔ معاملہ بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں؟ عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کے لیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟‘
اس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کی۔
اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے اور پہلے فنڈز کی عدم دستیابی کے معاملے پر عدالت کو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کے لیے بھیجا، گرانٹ کی بعد میں منظوری لینا خطرناک تھا۔‘
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ’آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کر سکتی ہے؟ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونی تھی؟ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے، کیا کبھی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری لینے میں حکومت کو شکست ہوئی؟‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سال 2013 میں کٹوتی کی تحریکیں منظوری ہوچکی ہیں، موجودہ کیس میں گرانٹ جاری کرنے سے پہلے منظوری لینے کے لیے وقت تھا، قومی اسمبلی اس معاملے میں قرارداد منظوری کر چکی تھی۔‘
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجھنے کی کوشش کریں معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضرورت نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے۔‘