سکردو میں ہفتہ بھر گزار کر خیال آیا کہ نامیاتی گاؤں میں ایسا کیا خاص تھا کہ یہاں پر برطانوی شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کو بطور خاص لایا گیا۔
ہم نے بھی اس نامیاتی گاؤں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ گھانچے کے مضافات میں واقع یہ گاؤں ماچولو وادی میں ہے۔
’ہم نے پہلے تھوڑے گاؤں دیکھے ہوئے ہیں کہ پھر گاؤں کی طرف چل نکلیں،‘ فوزیہ نے عدم دلچسپی دکھائی، مگر ہم پھر بھی چل دیے۔
عجیب ٹریک جو چونکا دینے والی منزل کی طرف جاتا تھا۔ سکردو کا پہلا نامیاتی گاؤں جیسا بھی ہو گا، اس منزل کا راستہ زیادہ خوبصورت تھا۔
پیدل سفر کے راستے کی خاموشی، اس جگہ کی پاکیزگی، نامیاتی گاؤں کی نظر نہ آنے والی کشش تک جانا اور چلتے چلے جانا دلکشی کا مؤجب تھا۔
پورے دن کے لیے گاؤں کی تلاش، اور پھر منزل کا لمس ضروری تھا، جس میں واپسی کے لیے دو گھنٹے کی ٹریکنگ شامل تھی۔
ٹریکنگ روٹ کا پہلا نصف کھردرا اور سخت تھا، خاص طور پر ہم بچوں کے ساتھ تھے اس لیے محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔
راستے کا دوسرا نصف حصہ نسبتاً آسان تھا اور ساتھ ہی قدرت کے عمدہ نظارے تھے۔ وہاں مجموعی طور پر 70 سے 80 افراد رہتے ہیں، جن میں 17 یا 18 خاندان ہیں۔
اس انوکھے گاؤں کی سیر کے لیے چار گھنٹے سے کم وقت کا قیام کافی نہیں۔
نامیاتی طریقہ زندگی گزارنا ایک صحت مند طرز زندگی ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے لوگ نامیاتی انداز میں زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں۔
اگرچہ یہ زندگی گزارنے کے لیے زیادہ مہنگا طریقہ لگتا ہے، لیکن نامیاتی طرز زندگی پر چلنے سے آپ زندگی کو بھرپور آسان بنا سکتے ہیں۔
ماحول کو بہتر بنانے اور اپنے اہل خانہ کو جسمانی اور ذہنی صحت مہیا کرنے میں نامیاتی طرز بود و باش مدد کرتا ہے، اس میں تیزی سے بیماری کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
نانگ سوق نامیاتی گاؤں کے نامیاتی طرز زندگی کو برقرار رکھنے کی وجہ صرف علامتی ہے کہ فطرت کو بچانے کے لیے ایسی زندگی گزارنا اب بھی ممکن ہے۔
آب و ہوا کے مسائل جیسے گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نکلنے کا ایک راستہ موجود ہے۔
گاؤں کا احاطہ چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے تعمیرشدہ ایک دیسی ساختہ دروازے سے شروع ہوتا ہے۔
داخلی دروازے پر انگریزی میں ’اولین آرگینک گاؤں میں خوش آمدید‘ کے الفاظ نقش ہیں۔ گیٹ کے بائیں جانب ایک خستہ حال سائن بورڈ پر گاؤں میں دستیاب سہولیات کا خلاصہ ہے۔
ان سہولیات میں آرگینک شپ فارمنگ، نیچرل واٹر سپرنگ، سیٹنگ ایریا، ٹروٹ فش فارم، کراپ پروڈکشن ایریا، آرگینک پولٹری، ٹوائلٹ، کیمپنگ ایریا اور ویلج ہاؤسنگ وغیرہ شامل ہیں۔
سائن بورڑ پر گاؤں میں داخل ہونے والے مہمانوں کے لیے چند ہدایات درج ہیں، جن میں مقامی روایات کی قدردانی، رہائشی علاقوں میں داخلے سے اجتناب، قدرتی ماحول کا تحفظ، گندگی اور کچرہ پھیلانے سے گریز اور مشکل کی صورت میں مقامی کمیٹی سے رجوع شامل ہیں۔
گاؤں شروع ہوتے ہی آپ خود کو ایک الگ دنیا میں محسوس کرتے ہیں، جہاں ہر طرف ہرے بھرے کھیت ، لہلاتے پھول، چھوٹے چھوٹے باغات، بیمار اور عمر رسیدہ درخت کے جنگل، گنگناتے چشموں، بودا مکانات، پالتوجانور، چرند پرند کی آوازیں اور مسکراہٹ بھرے چہرے آپ کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔
گاؤں کو آرگینک اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں کے باسی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے معاملے میں خود انحصارہیں۔
یہ لوگ کھانے پینے کے لیے گھریلو سطح پر دستیاب خالص غذا کا استعمال کرتے ہیں۔ گندم، سبزیاں اور پھلوں کی پیداوار ان کی اپنی ہے۔
یہ لوگ ان اجزا کی پیداوار کے سلسلے میں کمیائی کھاد کی بجائے دیسی کھاد، گوبر وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
دودھ، انڈے، مکھن، لسی، گوشت وغیرہ کے معاملے میں بھی یہ لوگ خود کفیل ہیں۔ یہاں کے کھانے انتہائی لذیذ اور متوازن ہیں۔
یہاں پر بازاری چیزوں کا استعمال آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حتیٰ کہ چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج بھی دیسی ٹوٹکوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بشرط وہ بیماری کوئی پیچدہ صورت اختیار نہ کر جائے۔
مہمانوں کے قیام کے لیے رہائشی آبادی سے قدرے فاصلے پر دیسی ساخت کے دو کمرے تعمیر کیے گئے ہیں۔
گاؤں کے لوگ انتہائی صفائی پسند اور قدرتی ماحول کو آلودگی سے بچانے کے حوالے سے سخت محتاط ہیں۔
’نامیاتی‘ ایک لیبلنگ اصطلاح ہے جو نامیاتی فوڈز پروڈکشن ایکٹ کے اختیار کے تحت تیار کردہ مصنوعات کی نشاندہی کرتی ہے۔
نامیاتی پیداوار کے لیے اہم رہنما اصول یہ ہیں کہ قدرتی نظام کے ماحولیاتی توازن کو بڑھانے والے اور زراعت کے نظام کے کچھ حصوں کو ماحولیاتی طور پر ضم کرنے والے مواد اور طریقوں کا استعمال کیا جائے۔
زمین پر تین سال تک مصنوعی کھاد یا ادویات استمعال نہ کی جائیں اور پھر فصل کاشت کی جائے تو حاصل شدہ خوراک نامیاتی کہلائے گی۔
زہریلی ادویات اور کیمیکل سے پاک زندگی نامیاتی گاؤں کی پہچان تھی۔ وہاں پر صرف ہم لوگ مصنوعی تھے، باقی سب کچھ خالص اور دیسی تھا۔
شام ڈھلے ہم اپنی زہر بھری زندگی میں واپس سکردو لوٹ آئے۔