چشمہ لگانے والے لوگ مجھے ہمیشہ سے منفرد نظر آتے تھے۔ عام لوگوں سے زیادہ عقلمند اور معاملہ فہم لگتے تھے۔
میں اور میرا بھائی بچپن میں ان انکل اور آنٹیوں کی زیادہ عزت کرتے تھے بلکہ خواہ مخواہ مرعوب بھی رہتے تھے جنہوں نے چشمہ لگایا ہوتا تھا۔ اور ہم دونوں دعا کرتے تھے کہ یا خدا ہمیں بھی چشمہ لگانے کی سعادت عطا فرما۔
مجھے بچپن میں ٹی وی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہمارے آبائی گھر میں دادی کی لمبی اور چوڑی درازوں والی ایک الماری کے اوپر ٹی وی رکھا ہوتا تھا۔
اس کے سامنے ایک قالین بچھا ہوتا تھا جس پر لیٹ کر میں سہ پہر تین بجے سے رات نو بجے تک تمام پروگرام دیکھا کرتا تھا۔ کھانا اور پڑھنا بھی وہیں ہوتا تھا۔
مسلسل ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے میری آنکھوں سے پانی بہنے اور جلن کی شکایت رہتی تھی لیکن میں نے ایسی کسی کمزوری کو راستے میں نہیں آنے دیا اور دلیری سے ٹی وی دیکھتا رہا۔
بس پھر 1996 میں ملتان کے مایہ ناز ڈاکٹر صادق نے میری آنکھوں کا معائنہ کیا جس کے بعد میرا خواب پورا ہوا اور مجھے آنکھوں پر چشمہ سجانے کا موقع مل گیا۔ میرا بھائی بہت جیلس ہوا کیوں کہ اس کو آج تک چشمہ نہیں لگ سکا۔
یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ چشمے کے ساتھ کیا کیا مشکلات جڑی ہیں۔ سب سے پہلے تو ناک میں درد شروع ہو گیا اور’نوز پیڈ‘ ناک کے اوپری حصے کی جلد میں ایسے گھسے کہ ان کا نشان کسی بزرگ کے پاؤں کے نشان کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ’ناک بوس‘ ہو گیا۔
کانوں کے پیچھے کمانیوں نے وہ دھمال ڈالا کہ خراشوں سے روح کو بالیدگی عطا ہوئی۔ لیکن لوگوں کے سامنے میں یہ سب رونے نہیں روتا تھا بلکہ زیادہ مدبر نظر آنے کی کوشش کرتا تھا۔
پھر سکول میں مجھے مرکزی انجمن طالب علمان کی جانب سے ’چشماٹو، عینکو، چشمولی اور چشمش‘ جیسے کائناتی القابات سے نوازا گیا جو غالباً ہر اس شخص کے لیے مخصوص ہوتے ہیں جس کو نیا نیا چشمہ لگتا ہے۔
اساتذہ کا رویہ یک دم بدل گیا جو میرے لیے کچھ تکلیف دہ تھا۔ وہ ایسے کہ تمام کلاس سے سوال کرنے کے بعد ٹیچر مجھے ہی دیکھنا شروع ہو جاتے کہ اس لڑکے نے عینک لگائی ہوئی ہے اس کو تو جواب لازمی آتا ہو گا اسی سے پوچھ لیتا ہوں۔
میں اس طرح پھنس جاتا تھا۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا۔ وہ تو شکر ہے میری کلاس میں دو سال بعد ایک اور عینک پہننے والے لڑکے نے انٹری ماری تو میرا بوجھ کچھ کم ہوا ورنہ مجھے ڈر تھا کہ زیادہ پڑھ کر کوئی پوزیشن ہی نہ لے بیٹھوں۔
چشمے کے دکھ چشموں والے ہی جانتے ہیں۔ شروعات میں تو چشمہ گم بہت ہوتا ہے۔ کہیں رکھ دیا تو یاد نہیں۔ ڈوری کے ساتھ گلے میں لٹکا لو تو اچھا نہیں لگتا۔ چشمہ صاف نہیں تو الجھن ہوتی رہتی ہے۔ منہ سے بھاپ دے دے کر سانسیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ایک شیشے پر چھوٹا سا ایسا داغ ضرور رہ جائے گا جو سب داغوں کا امریش پوری ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھاپ، تھوک، پانی، ٹشو، رومال، امی کا دوپٹہ یہاں تک کہ گاڑی صاف کرنے والے کپڑے سے بھی صاف کر لیں لیکن نہیں، وہ ہلکا سا نشان پھر بھی چھوڑ جائے گا جو عین آپ کے ڈیلے شریف کے ساتھ افقی رخ پر نوے کا زاویہ بنائے گا اور آپ کا جینا حرام کرتا رہے گا۔
ابھی رہی سہی کسر چشمے والوں کے لیے کرونا پوری کرتا گیا ہے۔ کمانی اور ماسک کے ربڑ نے بس کان کاٹ کر اتارا نہیں باقی تمام انتظام پورا تھا۔ وہ تو شکر ہے کسی نے ماسک کا ربڑ کمانیوں میں پھنسا کر پہننے کا طریقہ نکالا تو بچت ہو گئی۔
پھر ماسک پہن کر سانس لینا مشکل ہو گیا عینک والوں کے لیے۔ اپنے ہی نتھنوں کی پھنکاریں ماسک سے ٹکرا کر پرانے کمپیوٹر پر ونڈو 3.1 کے سکرین سیور کی طرح چشمے سے ٹکراتی رہتیں اور اسے دھندلا کیے جاتیں۔
شدت سے دل کرتا تھا کہ مارکیٹ میں گاڑی کی ونڈ سکرین کے وائپر کی طرح وائپر والی عینک بھی دست یاب ہو جائے۔
میں نے حساب لگایا ہے کہ چشمہ لگانے سے انسان کی شخصیت میں مدبرانہ خوب صورتی تو آ ہی جاتی ہے لیکن جب آپ اسی انسان کو چشمے کے بغیر دیکھیں تو وہ ’سونا سونا‘ لگتا ہے۔
یہاں مہنگی دھات کی بات نہیں ہو رہی بلکہ اس ویرانی کی بات ہو رہی ہے جو ایک نابغہ روزگار چشمہ لگانے والے کے منہ پر چشمہ اتارتے ہی پھیل جاتی ہے۔
ایسی ویرانی جیسے زندگی کے رنگ اڑ جاتے ہیں، زمین بنجر اور کٹاؤ کا شکار لگنے لگتی ہے۔ جیسے کسی میڈیوکر کی جیب، کسی ڈیلر یا ایجنٹ کا مکر و فریب۔
اس لیے اگر آپ کو چشمہ لگا ہوا ہے تو کوشش کریں عوام میں اسے کم کم اتاریں لیکن اگر اسٹائل مارنے کے لیے کچھ لمحے عینک کی کمانی اگلے دانتوں تلے داب کے سوچنے والا پوز دینا ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔ یہ نسخہ میں آزما چکا ہوں۔ اکسیر ہے۔