پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مہر علی کا سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں لکھے جانے والے بھارتی خطوط کے بارے میں کہنا ہے کہ ’ان خطوط کی وجہ سے سندھ طاس آبی مذاکرات نہیں رکیں گے۔‘
یہ بات انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔
بھارت نے پاکستان کو 25 جنوری کو خط لکھا تھا جس کا پاکستان نے 90 روز یعنی تین ماہ میں جواب دینا تھا۔ پاکستان دفتر خارجہ نے تصدیق کی کہ تین اپریل کو پاکستان نے بھارت کے خط کا جواب دے دیا ہے۔
جب پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مہر علی سے جب یہ سوال کیا کہ سندھ طاس معاہدے پر پاکستان بھارت آئندہ مذاکرات کب ہوں گے تو انہوں نے کہا ’اس حوالے سے ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا یہ قبل از وقت ہے۔‘
جبکہ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر بھارتی خط کا جواب دیا ہے۔ پاکستان نیک نیتی سے معاہدے پر عمل درآمد اور آبی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔‘
دوسری جانب بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے میڈیا میں پاکستان کا جوابی خط ملنے کی تصدیق کی اور کہا کہ ’خط کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
بھارت کا پاکستان کو ترمیم کے لیے خط
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق خط میں بھارت نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال سے آبی تنازعے کا معاملہ جمود کا شکار ہے، بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 12 (3) کے تحت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ گذشتہ 72 سال کے اسباق کو مدِنظر رکھ کر ترمیم کے لیے بین الحکومتی مذاکرات کو 90 دنوں میں شروع کرے۔
رواں ماہ سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کے توجہ دلاؤ نوٹس پر وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدے میں ردوبدل دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔‘
پاکستان کے اعتراضات کیا ہیں؟
پاکستان نے کشن گنگا منصوبے کے ڈیزائن پر تین اعتراضات اٹھاتے ہوئے ثالثی عدالت میں موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ منصوبے کا پانی 75 لاکھ کیوبک میٹر ہے جو کہ حد سے زیادہ ہے اور اسے 10 لاکھ مکعب میٹر ہونا چاہیے۔ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ ہندوستان آبی گزرگاہ کو 1-4 میٹر تک بڑھا دے اور سپل ویز کو نو میٹر تک اونچا کرے۔
رتلے ہائیڈرو پاور پلانٹ کے معاملے پر اسلام آباد نے چار اعتراضات اٹھائے ہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت فری بورڈ کو ایک میٹر پر برقرار رکھے جبکہ بھارت اسے دو میٹر پر رکھنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت 24دو کروڑ 40 لاکھ کیوبک میٹر کا تالاب رکھنا چاہتا ہے لیکن پاکستان اسے 80 لاکھ کیوبک میٹر تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ اس منصوبے کی انٹیک کو 8.8 میٹر تک بڑھایا جائے اور اس کے سپل ویز کو 20 میٹر تک بڑھایا جائے۔
گذشتہ برس بھارت میں آبی مذاکرات اجلاس سے واپسی پر کمشنر انڈس واٹر پاکستان نے واہگہ بارڈر پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں بیان دیا تھا کہ ’پاکستان نے بھارت کے دونوں منصوبوں لوئرکلنائی اورپکل ڈل میں واٹراسٹوریج کے آپشن پراعتراضات کر رکھا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے بھارت دریائے چناب کے چلتے پانی پر منصوبے بنا سکتا ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستانی دریاؤں کاپانی ذخیرہ نہیں کرسکتا۔‘
رتلے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے پاکستان کو کیا نقصان ہے؟
میسر تفصیلات کے مطابق 850 میگاواٹ کا رتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، اگر اس کے موجودہ قابل اعتراض ڈیزائن کے تحت تعمیر کیا جاتا ہے، تو ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب کے پانی کے بہاؤ میں 40 فیصد کمی آئی گی جو پاکستان کے وسطی پنجاب میں آبپاشی کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
بھارت نے رتلے پروجیکٹ کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دیا ہے جو اس منصوبے کو 35 سال تک BOT (بنائیں، چلائیں، اور منتقلی) کی بنیاد پر چلائے گی اور پھر اس منصوبے کو بھارت کے حوالے کرے گی۔
سندھ طاس معاہدے کے مذاکرات کب کب ہوئے؟
پاکستان بھارت سندھ طاس کمیشن کا 116واں اجلاس 23 اور 24 مارچ 2021 میں نئی دہلی بھارت میں منعقد ہوا تھا۔
اس سے قبل اجلاس اگست 2018 میں ہوا تھا جبکہ جنوری 2019 میں پاکستان وفد نے بھارت میں چناب بیسن پر پکل دل، لوئر کلنائی، راتلے اور باگلیہار ڈیموں کا دورہ کیا تھا اور جائزہ لیا تھا۔
فروری 2022 میں بھارتی انڈس واٹر کمشنر وفد کے ہمراہ پاکستان آئے اور 117واں اجلاس پاکستان میں ہوا۔ جبکہ مئی 2022 میں 118واں اجلاس بھارت میں ہوا تھا۔
معلومات کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی متعلقہ شقوں کے مطابق کمیشن کا اجلاس سالانہ بنیادوں پر باری باری پاکستان اور بھارت میں منعقد ہوتا ہے۔ رواں برس ابھی تک آبی مذاکرات کا آغاز نہیں ہوا۔
پاکستان نے ثالثی کی بین الاقوامی عدالت سے کب رجوع کیا؟
ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اور اس معاہدے کے مطابق اس کا کردار پاکستان اور بھارت کو آبی تنازعے سے بچانے کا ہے۔
بھارت کی جانب سے دریائے جہلم اور چناب پر ڈیموں کی تعمیر کے معاملے پر پاکستان نے ورلڈ بینک سے 2016 اگست میں رجوع کیا تھا جس پر پہلے ورلڈ بینک نے پاکستان بھارت کو یہ مسئلہ باہمی طور پر حل کرنے کی ہدایت کی اور بعد ازاں عالمی بینک نے پاکستان کے مطالبے پر ثالثی عدالت قائم کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں ممالک کا نقطہ نظر سننے کے بعد دسمبر 2016 میں ورلڈ بینک نے معاملے میں تقریباً پانچ برس کا توقف کیا۔
پاکستان بھارت جاری آبی مذاکرات میں ایک نقطے پر متفق نہ ہونے کے باعث اپریل 2022 میں ورلڈ بینک پریس ریلیز نے پانچ سال بعد کارروائی بحال کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ ’سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت ادارے نے اپنی ذمے داریوں کے مطابق وہ تقرریاں کی ہیں جو اسے کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی طرف سے دائر دو الگ الگ درخواستوں میں منشور کے مطابق دی گئی تھیں۔ بھارت نے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کی درخواست کی تھی جبکہ پاکستان نے ثالثی عدالت کا انتخاب کیا تھا۔‘
ورلڈ بینک نے پاکستان اور بھارت کی الگ الگ درخواستوں پر کارروائی کو فعال کیا اور 17 اکتوبر 2022 کو ثالثی عدالت کے چیئرمین اور غیر جانبدار ماہر کا تقرر کیا۔
پاکستان نے اپنے دو ثالث مقرر کیے تھے لیکن بھارت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جبکہ ثالثی کی عدالت کے سامنے کارروائی رواں برس 27 جنوری میں ہیگ میں شروع ہوئی، لیکن بھارت نے اس کا بھی بائیکاٹ کیا۔
ہندوستان کے خارجہ امور کے ترجمان ارندم باگچی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ورلڈ بینک ہمارے لیے معاہدے کی تشریح کرنے کی پوزیشن میں ہے۔‘
جبکہ دوسری جانب پاکستان بھارت آبی تنازعے پر ورلڈ بینک کے پانچ سال توقف میں بھارت نے متنازع ڈیموں کی تعمیر کر لی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ / انڈس واٹر ٹریٹی
پاکستان بھارت کے مابین پانی کی منصفانہ تقسیم کا معاہدہ 1960 میں طے ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے پانی کی تقسیم کو تسلیم کیا تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے دائرہ کار میں چھ دریا آتے ہیں جن میں دریائے انڈس، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس شامل ہیں۔
معاہدے کی رو سے پاکستان کے مغربی دریا جن میں دریائے جہلم، چناب اور انڈس بھارت سے برآمد ہوتے ہیں اور پاکستان میں بہہ کر آ جاتے ہیں، ان پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ لیکن بھارت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان پر نئے ڈیموں کی تعمیر کرکے پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو روکے یا ذخیرہ کرے۔
دریائے انڈس دریائے چناب اور دریائے جہلم تین اہم دریا ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصار ان تین دریاؤں پر ہی ہے۔