بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات نئی ہوگی کہ دریائے سندھ کا شمار پانی کے بہاؤ کے حوالے سے دنیا کے بڑے دریاؤں میں ہوتا ہے، جس میں بہنے والے پانی کی مقدار دریائے نیل سے دوگنی ہے۔
شاید لوگ یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ انڈیا کا نام انڈس سے لیا گیا ہے۔ چونکہ موہن جو دڑو جسے انڈس کی تہذیب میں مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ دریائے سندھ کے کنارے پر ہی آباد تھا، اس لیے اسی نسبت سے جب ہندوستانی قیادت نے ملک کا سرکاری نام انڈیا رکھا تو ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے سابق سربراہ سر جان مارشل نے بھی اس پر حیرت کا ظہار کیا تھا کہ دریائے سندھ کی تہذیب کے تمام علاقے پاکستان میں آتے ہیں تو پھر ہندوستان کا سرکاری نام انڈیا کیوں رکھا گیا ہے؟
دریائے سندھ کی کل لمبائی 3180 کلومیٹر ہے، جس کا آغاز تبت کے مغربی علاقے سے ہوتا ہے۔ لداخ اور گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا یہ دریا جب نانگا پربت کے پاؤں کو چھوتا ہوا گزرتا ہے تو شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ یہ اٹک کے مقام پر دریائے کابل سے ملاپ کرتا ہے۔ کالا باغ کے مقام سے یہ میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے اور پھر کراچی کے قریب سمندر سے جا ملتا ہے۔
دریائے سندھ جتنے بڑے علاقے کا پانی ساتھ لے کر آتا ہے اس کا مجموعی رقبہ پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ ہے جو 1165000مربع کلومیٹر بنتا ہے۔
دریائے سندھ کا نام سندھ کیسے پڑا؟ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایران کی اخمینی حکومت کا دائرہ اثر جب گندھارا تک تھا تو وہ اسے ہندو کے نام سے پکارتے تھے جسے یونانیوں نے انڈس پکارا اور بعد میں سنسکرت میں سندھو ہو گیا جو اب سندھ کہلاتا ہے۔ تاہم مختلف وقتوں میں اس کے نام مختلف رہے ہیں۔
اٹک کے گذٹیئر میں لکھا ہے کہ ’ضلع کے اندر دریائے سندھ کے دو نام ہیں۔ جب ہزارہ سے اٹک کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو یہ دریائے اٹک کہلاتا ہے۔ ‘ سید نصرت بخاری کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’ضلع اٹک، تذکرہ و تاریخ ‘ میں دریائے سندھ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسے اس کے نیلگوں پانی کی مناسبت سے نیلاب کا نام بھی دیا گیا تھا۔ باغ نیلاب کا قصبہ آج بھی اٹک بسال روڈ پر دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے۔ دراصل یہی وہ قصبہ ہے جہاں سے قدیم حملہ آور اس دریا کو پار کر کے ہندوستان میں داخل ہوتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’تاریخ فرشتہ‘ کے مصنف محمد قاسم فرشتہ بھی اسے نیلاب ہی لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اسے پار کرنا منع ہے۔کہا جاتا ہے کہ نیلاب کو پار کرنے پر اس لیے پابندی تھی کہ اٹک کے مغرب میں مسلمان آباد تھے جن کو وہ ملیچھ سمجھتے تھے اور اگر کوئی ہندو دریا پار کر لیتا تو واپسی پر اسے پھر نئے سرے سے ہندو بنایا جاتا تھا۔اس عقیدے کی تصدیق انیسویں صدی کے یورپی سیاح ہیوگل اور برنس بھی کرتے ہیں۔تاہم جنرل کننگھم کا خیال ہے کہ دریائے اٹک کی وجہ تسمیہ ٹکا نامی قبیلہ تھا جو مارگلہ اور دریائے اٹک کے درمیان آباد تھا۔
کچھ مؤرخین کے مطابق اٹک دراوڑی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی دلدلی زمین کے ہیں۔ جبکہ عام تاثر یہی ہے کہ اس کا نام دریائے اٹک اس لئے پڑا کہ یہاں آ کر اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے اس لیے اسے دریائے اٹک کہا جاتا ہے۔ مغلوں کی زبان چونکہ ترکی تھی اور ترکی میں اتک کا لفظ دامن کوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اکبر نے یہاں پر ایک بڑا قلعہ تعمیر کروایا جو ایک پہاڑی کے دامن میں تھا اس لیے اسے اتک پکارا جانے لگا جو بعد میں اٹک ہو گیا۔
ہندو، سندھو، سندھ، اٹک یا نیلاب بدلتے زمانوں کے ساتھ اس شیر دریا کے نام بھی بدلتے رہے ہیں۔زمانہ قدیم میں چونکہ ذرائع رسد و رسائل محدود تھے اور لوگ ایک دوسرے کے علاقوں کے بارے میں بہت محدود معلومات رکھتے تھے، اس لیے جس دریا کی آج لمبائی تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے اور جو تبت کے بلندوبالا پہاڑوں سے ہوتا ہوا پنجاب کے میدانی علاقوں کو سیراب کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ہر علاقے میں اسے مختلف ناموں سے ہی پکارا جاتا رہا ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے دامن میں دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں پروان چڑھیں اور انہی تہذیبوں کی مناسبت سے اسے دریائے سندھ کہا جاتا ہے۔