بنگلہ دیش میں ماہی گیری کے ڈوبنے والے ٹرالر سے کم از کم 10 سیلرز کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ یہ ٹرالر دو ہفتے سے زیادہ عرصے سے لاپتہ تھا۔
مچھلی پکڑنے والے اس جہاز کو اتوار کی شام دریائے بکھالی کے دھانے کے قریب دیکھا گیا جس کے بعد مقامی لوگ اسے سیاحتی شہر کاکس بازار میں کنارے پر لے آئے۔
رسی اور جال سے بندھی لاشیں ٹرالر کے کولڈ سٹوریج چیمبر سے برآمد ہوئیں جو مچھلیوں کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مقامی پولیس نے بتایا کہ لاشیں مسخ ہو چکی تھیں اور ان سے شدید بدبو اٹھ رہی تھی۔
کاکس بازار صدر پولیس سٹیشن کے افسر انچارج رفیق الاسلام نے کہا کہ حکام کا ماننا ہے کہ ٹرالر پر کم از کم دو ہفتے قبل قزاقوں کے گروہ نے حملہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر قزاقوں نے ٹرالر کو لوٹ لیا، ماہی گیروں کو رسی سے باندھا، کولڈ سٹوریج میں رکھا اور خلیج بنگال میں موجود ٹرالر میں سوراخ کر دیا۔
مقامی اخبار نیو ایج بنگلہ دیش کے مطابق پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ انہیں منصوبہ بندی کر کے قتل کیا گیا کیوں کولڈ سٹوریج کا دروازہ باہر سے بند تھا۔‘
رفیق الاسلام نے کہا کہ ’نیچے کے حصے میں سوراخ کی وجہ سے ٹرالر میں پانی داخل ہو گیا جس سے وہ خلیج میں الٹ گیا۔ حملہ آوروں نے ماہی گیروں کو مارنے اور کشتی کو تباہ کرنے کے لیے اس میں سوراخ کیا ہو گا۔‘
رپورٹ کے مطابق ڈوبنے والے بحری جہاز کو گہرے سمندر سے واپس آنے والی ایک اور ماہی گیری کی کشتی نے دیکھا جو اسے مقامی لوگوں سے پہلے ہی سمندر کے ساحل پر لے گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس نے بتایا کہ گلتی سڑتی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی ہسپتال بھیج دیا گیا۔
پولیس نے مزید کہا کہ مرنے والوں کی شناخت سے قتل کے محرکات کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔
لاپتہ ماہی گیروں کے لواحقین ہفتے کی رات مردہ خانے پہنچنا شروع ہو گئے تاکہ مرنے والوں کی شناخت کی جا سکے۔
ٹرالر کے مالک شمس العالم کی اہلیہ رقیہ اختر نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے ’اپنے شوہر کو ان کے کپڑوں سے پہچانا۔‘ عالم نے مبینہ طور پر سات اپریل کو ماہی گیری کے لیے ٹرالر نکالا تھا۔
حکام نے بتایا کہ قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد لاشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے کر دیا جائے گا۔
© The Independent