طلوع آفتاب کے وقت اماراتی فالکنر عائشہ المنصوری گاڑی میں اپنے عقابوں کے ساتھ ابوظبی کے صحرا میں چلی جاتی ہیں۔
یہ اماراتی فالکنر اپنی نو سالہ بیٹی اوشا کے ساتھ اس روایتی کھیل کی مشق کرتی ہیں اور اپنے بازوں کو پرندوں اور خرگوشوں جیسے جانوروں کا شکار کرنا سکھاتی ہیں۔
عقاب پالنے کا رواج ہزاروں برسوں سے متحدہ عرب امارات کا حصہ رہا ہے، جہاں صحرا میں شکار کرنے کے لیے اس پرندے کا استعمال کیا جاتا تھا۔
عائشہ نے یہ کھیل اپنے والد سے سیکھا اور اپنی بیٹی کو اس وقت سے تربیت دے رہی ہیں جب وہ صرف سات ماہ کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اس کھیل کی مشق اپنی مرضی سے شروع نہیں کی تھی بلکہ یہ میرے والد سے میری محبت اور صحرا میں ان کے ساتھ جانے کی وجہ سے ہوئی، مجھے یہ کھیل پسند آیا اور میں نے اس کھیلنا شروع کر دیا۔‘
زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس شوق کو اپنانے کی ترغیب دینے اور اسے محفوظ رکھنے کی مہم کے دروان عائشہ نے سینکڑوں خواتین کو فالکنری سکھائی اور اس کے بارے میں بچوں کی ایک کتاب شائع کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائشہ نے کہا: ’ہم چاہتے ہیں زیادہ سے زیادہ خواتین اس کھیل کی مشق کر کے عقاب پالنے والی بنیں۔
’ان کے لیے ایک نجی مرکز ہو تاکہ وہ اکیلے پریکٹس کر سکیں اور ہمارے ورثے اور زندگیوں میں اس کھیل کی اہمیت کے بارے میں جان سکیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ ایک روایتی کھیل ہے جو آپ کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ یہ مواقع سے فائدہ اٹھانے اور بہت سی دوسری چیزوں کا صبر سکھاتا ہے۔
’آپ فالکنز کو شکار کرنا سکھا کر صبر اور مہارت بھی سیکھ سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ گھر میں اپنے فالکنز کو ہوار دار جگہ میں صحرائی ریت اور پانی کے ساتھ رکھتی ہیں۔
عائشہ ان کی غذا پر نظر رکھتی ہیں، جس میں جما ہوا اور تازہ گوشت شامل ہے، اور ہر تربیت سے پہلے ان کا وزن نوٹ کرتی ہیں۔
’ہم جب بھی فالکن کو تربیت دیتے ہیں تو ان کا وزن کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ کم ہو تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
’اگر وزن زیادہ ہو تو ہمیں تربیت کے دوران محتاط رہنا پڑتا ہے۔ تربیت سے پہلے ان کا وزن کرنا ضروری ہے۔‘
عائشہمتحدہ عرب امارات اور خطے بھر میں متعدد فالکنری مقابلوں اور تہواروں میں حصہ لے چکی ہیں۔