سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہوئے 180 ووٹ حاصل کیے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم شہباز شریف پر اعتماد کی قرارداد پیش ہوئی۔ قرارداد وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پیش کی۔
سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ میاں شہباز شریف نے 180 ووٹ حاصل کیے ہیں اور انہیں ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج مفتی عبدالشکور زندہ ہوتے تو یہ تعداد 181 ہوتی۔
قومی اسمبلی کے سیکریٹیریٹ سے جاری ہونے والے ضمنی آرڈر آف دا ڈے میں کہا گیا تھا کہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو مندرجہ ذیل قرارداد پیش کریں گے: ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میاں محمد شہباز شریف کی بطور وزیرِ اعظم پاکستان قیادت پر مکمل اعتماد کرتی ہے۔‘
اس دوران پی ٹی آئی رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سمیت 12 اراکین قومی اسمبلی اپنی نشستوں پر کھڑے نہیں ہوئے جبکہ پانچ پی ٹی آئی اراکین ووٹنگ کے دوران ایوان سے باہر چلے گئے تھے۔ ووٹنگ کے بعد یہ اراکین ایوان میں واپس آ گئے۔بعد ازاں وزیر اعظم نے پارلیمان میں تمام پارلیمانی لیڈرز اور اپوزیشن لیڈرز کی نشستوں پر جا کر ان سے ہاتھ ملائے۔
ووٹنگ کے دوران گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جماعت اسلامی کے اراکین موجود نہیں تھے۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’میں کہتا ہوں 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کروائی جائیں۔ سال 2018 کا الیکشن جھرلو الیکشن تھا۔ اپوزیشن نے ہم پر جو الزام لگایا ہے اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔
’کہا گیا کہ ’سازش کے ذریعے حکومت ختم کی گئی۔ عمران خان کی حکومت نے روس اور چین کے حوالے سے جھوٹ بولا۔ اگر ان کی بات سچ ہوتی ہو آج روس سے پاکستان کے لیے تیل کا جہاز نہ نکل چکا ہوتا۔‘
اس موقعے پر انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر بھی سخت تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ ’آئین بنانا، اس میں ترمیم کرنا پارلیمان کا استحاق ہے۔ عدلیہ آئین کو ری رائٹ نہیں کر سکتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’ہم نے مشورہ کر کے جماعت اسلامی سے زعما سے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف سے بات چیت سے کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ہمارے اتحاد میں کچھ جماعتیں اس حوالے سے سخت موقف رکھتی ہیں۔
’ہم نے کل فیصلہ کیا کہ ہم سینیٹ میں بات چیت کے لیے اپنے نمائندے بھیجیں گے۔ سینیٹ ہاؤس آف فیڈریشن ہے۔ لیکن بات چیت کا ایجنڈا یہ ہو گا کہ پورے پاکستان میں ایک دن الیکشن ہوں گے۔ غیر جانبدار اور شفاف الیکشن ہوں گے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’عدالت نے خیبر پختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے ایک لفظ نہیں کہا۔ صرف پنجاب میں الیکشن کی بات کی جاتی ہے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کے انتخابات میں اگر ایک جماعت جیت جاتی ہے یا دوسری جیت جاتی ہے تو وفاق میں اور باقی صوبوں میں اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس سے کیا پیغام جائے گا کہ پنجاب صورت حال کا غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔
’اس لیے ہم کہتے ہیں کہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہییں۔‘
21 ارب کے گرد صحافی اور تجزیہ کار عمر چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارا اعتماد کا ووٹ 21 ارب کے گرد گھوم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے یہ کام کیا ہے اور پھر وہی معاملہ دوبارہ پارلیمان میں آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہ بات آئی تھی کہ کابینہ نے منظوری دے دی ہے کہ 21 ارب روپے جاری کیے جائیں، لیکن پارلیمان نے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے بینچ نے اس پر سوال اٹھایا تھا کہ کیا اس کا ہم یہ مطلب لیں کہ وزیرِ اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل نہیں ہے؟ اس سے حکومت نے یہ مطلب لیا ہے کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے اور اس میں یہ حکم بھی شامل ہو سکتا ہے کہ بظاہر وزیرِ اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ حکومت نے یہ خبر زیادہ پھیلنے نہیں دی، کیوں کہ اس طرح مختلف اتحادی اپنے مسائل لے کر آ جاتے، لہٰذا انہوں نے کل تک سب کو اندھیرے میں رکھا۔ |
21 ارب جاری کرنے سے متعلق تحریک ایک مرتبہ پھر مسترد
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تحریک پیش کی کہ کیا یہ ایوان پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے سے متعلق بل پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
سپیکر نے ایوان میں یہ تحریک پیش کی جسے ایوان نے مسترد کر دیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں یہ نکتہ اٹھایا کہ سپریم کورٹ نے آج 27 اپریل تک فنڈز جاری کرنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔ کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہ ایوان دو مرتبہ قرارداد منظور کر چکا ہے، یہ ایوان فنڈز کے اجرا سے متعلق بل اور سپلمنٹری گرانٹ بھی مسترد کر چکا ہے، اور کابینہ کی رائے میں اس ایوان کی رائے مقدم ہے، اور کنسولیڈیٹ فنڈ اس ایوان کی اجازت سے مشروط ہے اس لیے ایوان سے رائے لی جائے کہ کیا ایوان فنڈز کے اجرا سے متعلق گرانٹ یا پھر بل لائے اس پر ایوان کی رائے کیا ہے یہ پوچھا جائے۔
اس پر سپیکر نے اعظم نذیر تارڑ کو تحریک پیش کرنے کی ہدایت کی جس پر وزیرقانون نے تحریک پیش کرکے ایوان سے فنڈز کے اجرا سے متعلق اجازت لی جس کو ایوان نے مسترد کر دیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس کل ساڑھے 11 تک ملتوی کر دیا گیا۔
اس سے قبل بلاول بھٹو نے اعتماد کی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایوان وزیر اعظم شہبازشریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ آج کل ملک میں بہت سی افواہیں چل رہی ہیں۔‘
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعرات کی دوپہر حکومتی ارکانِ پارلیمان کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
جمعرات ہی کو سپریم کورٹ میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اس بارے میں حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے اعتماد کے ووٹ حاصل کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، بیس اراکین اسمبلی جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ان کا ووٹ وزیر اعظم کے حق میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔‘
اپنی ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’شہباز شریف کو صرف 172 ارکان کی بجائے صرف 160 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل۔ آج کا یہ ووٹ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی بہت بڑی شکست ہے۔‘