سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ’پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت‘ کے عنوان سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بدھ کو لکھا گیا خط پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔
خط کے متن میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ ’قومی اسمبلی کے سپیکر اور ایوان کے محافظ کے طور پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔‘
سپیکر قومی اسبملی نے لکھا کہ ’میڈیا میں رپورٹ ہونے والے سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلوں اور بعض محترم جج صاحبان کے تبصروں پر عوامی نمائندوں کے اضطراب اور تشویش کے اظہار کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں۔‘
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’قومی اسمبلی شدت سے محسوس کرتی ہے کہ حالیہ فیصلے قومی اسمبلی کے دو بنیادی آئینی فرائض میں مداخلت ہے۔‘
پانچ صفحات پر مشتمل خط میں کہا گیا ہے کہ 14 اور 19 اپریل کو تین رکنی بینچ نے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب جاری کرنے کے حکم دیے۔ قومی اسمبلی کی طرف سے رقم دینے کی سخت ممانعت کے باوجود یہ حکم جاری کیے گئے۔‘
’افسوس ہے کہ تین رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے آئینی عمل اور استحقاق کو مکمل نظرانداز کیا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ تین رکنی بینچ نے عجلت میں حکم دیا۔‘
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا عام معمول سے ہٹ کر حکم دیا۔‘
سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’تین رکنی بینچ نے رقم جاری نہ ہونے پر وفاقی حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔‘
’افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ قومی اسمبلی کو تابع بنانے کی کوشش ہے۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’قومی اسمبلی واضح ہے کہ یہ حکم ناقابل قبول اور قومی اسمبلی کے اختیار، استحقاق اور دائرہ کار کی توہین ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازعہ قومی مفاد کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔‘
’قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لیے رقم رکھی جائے گی۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے نامہ نگار قرۃ العین شیرازی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ’چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری شامل ہیں۔‘
’سپریم کورٹ کا کام ثالثی نہیں، قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے‘
اس سے قبل بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان میں ایک ساتھ الیکشن منعقد کرانے پر سیاسی اتفاق رائے کے لیے اسلام آباد میں ہونے والے اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا کام ثالثی کرنا یا پنچایت نہیں ہے، بلکہ آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ ہم نے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تین چار معاملات پر پارلیمان اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ کل ہم نے بتانا ہے، اس معاملے کا فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ میں نے اور آپ نے نہیں کرنا ہے۔‘
تحریک انصاف سے مذاکرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اکثریتی رائے یہ ہے کہ ہمیں گفتگو کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہم سپیکر کے ذریعے اس بات کو ان تک پہنچائیں اور پارلیمانی کمیٹی اس معاملے پر کام کرتے ہوئے اس پر گنجائش پیدا کر سکتی ہے، تاکہ قوم یہ جان سکے کہ اتحادی حکومت نے ملک میں ایک دن الیکشن پر سب کو اکٹھا کرنے کی آخری کوشش کر لی۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے کبھی انا کو اپنا مسئلہ نہیں بنایا۔ لیکن انہوں نے قوم میں اتحاد کے لیے کبھی اپنی انا کو نیچے نہیں کیا۔‘
اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں تقسیم کی ہر کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ پاکستان کی فوج کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ پاکستان سے باہر مقیم پی ٹی آئی کے ایجنٹوں نے گھناؤنا کردار ادا کیا، شاید دشمن بھی ایسا کردار ادا نہ کرتا۔‘
اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرادری، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن، آفتاب شیرپاو، خالد مقبول صدیقی، خالد مگسی، آغا حسن بلوچ، چوہدری سالک حسین، طارق بشیر چیمہ، ساجد میر، حافظ عبدالکریم، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، قمر زمان کائرہ، سردار ایاز صادق، اسحاق ڈار اور بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کیں۔
اتحادی جماعتوں کی بیٹھک کے بعد بدھ ہی کو وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہو گا۔ سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے رکھا ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اسے الیکشن کرانے کے لیے مطلوبہ فنڈز نہیں ملے اور نہ ہی سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
مزید برآں وزارت دفاع نے بھی ملک کی سکیورٹی صورت حال سے متعلق ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا رکھی ہے۔
وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے 14 مئی کو الیکشن کرانے کے حکم کا جائزہ لیا۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں آپس میں اس معاملے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کریں، جس پر حکومتی وکیل نے گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ عید کی پانچ روزہ تعطیلات کی وجہ سے فوری مشاورت نہیں ہو سکتی، اس لیے 26 اپریل کو اتحادی جماعتیں مشاورت کریں گی۔
ملک میں ایک ساتھ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی مہلت کا آج آخری روز ہے۔
عدالت نے اپنے ایک حکم نامے میں لکھوایا تھا کہ 26 اپریل کو ہونے والے اجلاس کی رپورٹ 27 اپریل کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے اور آئندہ سماعت 27 اپریل کو ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے 18 اپریل کو الیکشن کرانے سے متعلق کیس کی سماعت میں کہا تھا: ’امید ہے مولانا فضل الرحمان کچھ لچک دکھائیں گے۔‘
تاہم حکمران اتحاد کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں سخت موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ عدالت ہے یا پنچایت؟‘
انہوں نے مزید کہا: ’عدالت کہہ رہی ہے کہ آپ عمران خان سے بات کریں اور الیکشن کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق کریں، عدالت عمران خان کے لیے لچک پیدا کر سکتی ہے تو ہمارے لیے کیوں لچک پیدا نہیں کر سکتی؟ سپریم کورٹ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے۔‘
ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کے معاملے پر جہاں وزیر اعظم شہباز شریف کو جے یو آئی کے تحفظات کا سامنا ہے وہیں حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل ایک اور پارٹی متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں ڈیجیٹل مردم شماری پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے ایک پریس کانفرنس ڈیجیٹل مردم شماری کی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔