ہنزہ کے چھوٹے سے گاؤں خیبر گنجال سے تعلق رکھنے والی شگفتہ آصف نے مکس مارشل آرٹس کے نیشنل فائٹنگ سیزن ٹورنامنٹ میں امیچور فلائے ویٹ کیٹگری کی ٹائٹل بیلٹ حاصل کی ہے۔
شگفتہ آصف ان دنوں کراچی میں مکس مارشل آرٹس کی تربیت بھی حاصل کر رہی ہیں۔ ’مکس مارشل آرٹس میں باکسنگ، کک باکسنگ، جوجسٹو، ریسلنگ، تائیکوانڈو شامل ہیں۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی جس کے لیے سکالر شپ کی ضرورت تھی اور یہی وجہ تھی کہ میں کھیل کے شعبے میں اتری اور اپنی بہن اور والد کے مشورے سے مکس مارشل آرٹس کو چنا۔‘
شگفتہ آصف کراچی یونیورسٹی سے کرمنالوجی کے شعبے میں ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔
’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری اس کھیل میں دلچسپی اتنی بڑھ گئی کہ اب میں اسے بطور کریئر لے کے بڑھنا چاہتی ہوں۔‘
شگفتہ آصف نے ٹریننگ کے ابتدائی ایام یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پیدل اپنے ٹریننگ سینٹر جاتی تھیں لیکن انہیں ’ہراساں‘ کیا جاتا تھا کیونکہ ’اکیلی لڑکی کا نکلنا گلگت میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں لوگ میرا پیچھا کرتے اور مجھے گھور گھور کر دیکھتے۔ دوسری طرف سوسائٹی کی باتیں کہ لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کرتی ہے، لڑکی ہو کر لڑکوں والے شعبے میں آگئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتی ہیں کہ اس سب کے بعد انہوں نے ٹریننگ روک دی۔ لیکن ان کے کوچ اور بہن نے حوصلہ بڑھایا جس کی وجہ سے وہ کراچی آئیں۔
کراچی شفٹ ہونے اور تین سال کی جدوجہد کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’اب میں اس مقام پر پہنچی ہوں اور اتنی پراعتماد ہو گئی ہوں کہ کوئی بھی رکاوٹ میرے راستے میں حائل نہیں ہو پاتی۔‘
’کئی سال گزر جاتے ہیں گھر والوں سے ملاقات نہیں ہو پاتی، تہوار بھی اکیلے منا لیتی ہوں، لیکن جب اتنی دور آئی ہوں تربیت حاصل کر رہی ہوں تو ملک اور والدین کا نام روشن ضرور کروں گی۔ میرے والد اس کامیابی پر اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے میری چیمپیئن بیلٹ اپنے پاس رکھ لی ہے۔‘
شگفتہ آصف کے مطابق ان کا پروفیشنل فائٹر بننے کا ارادہ ہے اور رواں سال ایشین چیمپیئن شپ کے لیے وہ تیاری کر رہی ہیں۔