شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 وایں اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا کی ساحلی ریاست گوا میں موجود پاکستانی وزیر حارجہ بلاول بھٹو زرداری کی اپنے روسی ہم منصب سرگئے لاوروف سے ملاقات کی ہے۔
پانچ مئی سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی کی دعوت پر پاکستان کی نمائندگی کے لیے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری جمعرات کو انڈیا پہنچے۔
پانچ اور چھ مئی کو گوا میں ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں ایس سی او رکن ممالک کے علاوہ ڈائیلاگ پارٹنرز اور مبصر اراکین کی نمائندگی بھی ہو گی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کی سائیڈلائن پر بلاول بھٹو زرداری اور روس کے وزیر خارجہ سرگئے لاوروف کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔
دفتر خارجہ نے بیان میں بتایا ہے کہ ’بلاول بھٹو زرداری اور روسی وزیر خارجہ سرگئے لاوروف نے ملاقات میں مشترکہ مفادات کے دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بات چیت کی ہے۔‘
FM @BBhuttoZardari met Russian FM @mfa_russia on the sidelines of #SCO CFM in Goa today. #PakFMatSCO
— Spokesperson MoFA (@ForeignOfficePk) May 4, 2023
pic.twitter.com/To2KBMTbev
بیان کے مطابق ’دونوں وزرائے خارجہ نے فوڈ سکیورٹی، توانائی اور عوام کے عوام سے روابط پر تعاون کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایس سی او سے روس کے ساتھ تعاون اور روابط کی نئی راہیں کھلی ہیں۔‘
بلاول بھٹو نے آج شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل زینگ منگ سے بھی ملاقات کی۔
دفتر خارجہ کے جاری بیان میں بتایا گیا کہ سیکریٹری جنرل نے شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت اور علاقائی تعاون، رابطے، امن اور خوش حالی کے لیے کوششوں پر وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گوا پہنچنے پر صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ایس سی او اجلاس میں شرکت اور پاکستانی وفد کی قیادت کے لیے گوا پہنچ کر بہت خوش ہوں۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بہت ہی کامیاب ہوگا۔‘
اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے ایک ویڈیو میں اپنی مصروفیات کے بارے میں بھی بتایا ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ان کی سب سے پہلی ملاقات روس کے وزیر خارجہ سے ہوگی اور پھر ازبکستان کے وزیر خارجہ سے ملیں گے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ ’آج ہی وزرائے خارجہ کے لیے عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کچھ انٹرویوز بھی دوں گا۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے حوالے سے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں ہونے والے ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کی شرکت کا فیصلہ ایس سی او کے میثاق اور کثیرجہتی کے لیے ہمارے عزم کا عکاس ہے۔‘
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بدھ کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ہم خطے میں استحکام اور امن کی مشترکہ اقدار میں آگے بڑھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
پاکستان اور انڈیا دونوں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی چیئرمین شپ رواں برس انڈیا کے پاس ہے اس لیے انڈیا ایس سی او کونسل آف فارن منسٹرز اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک فارن افیئرز کے ایک مضمون کے مطابق اسلام آباد کے لیے بلاول کا دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے اور اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے ناکہ یہ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔
پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے فوائد کئی ہیں۔ تاریخی طور پر چین اور روس نے اس گروپ کی قیادت کی ہے۔ چین اسلام آباد کا ایک قریبی اتحادی اور اہم دوست ہے جبکہ روس کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس تنظیم کی نصف رکنیت وسطی ایشیا میں مقیم ہے، جہاں پاکستان تجارت اور رابطوں کو وسعت دینے کے لیے روابط کو گہرا کرنے کی امید رکھتا ہے۔ اس میں اسے 2021 میں ازبکستان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی ریل نظام تیار کرنے کے معاہدے پر دستخط ایک بڑی کامیابی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ کونسل کا شیڈول:
پاکستان دفتر خارجہ حکام کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری وفد کے ہمراہ جمعرات کو گوا پہنچے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں شرکت کے لیے اب تک روس، چین اور پاکستان کے وزیر خارجہ پہنچ چکے ہیں جبکہ دیگر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ شام تک پہنچیں گے۔
دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی صرف دوست ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں طے ہیں جبکہ انڈیا کے ساتھ کسی قسم کی دو طرفہ ملاقات کی نہ درخواست کی گئی اور نہ ہی کوئی درخواست موصول ہوئی ہے۔
انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کی ایس سی او کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی روس اور چین کے وزیر خارجہ سے بھی دو طرفہ ملاقات طے ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے مطابق انہوں نے بھی پاکستانی وزیر خارجہ سے کوئی ملاقات طے نہیں کی۔
وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں 15 نکات پر بات چیت کی جائے گی۔ دستیاب معلومات کے مطابق وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں مالدیپ، میانمار، متحدہ عرب امارات اور کویت کو ڈائیلاگ پارٹنر بنانے پر بات چیت کی جائے گی تاکہ رواں برس سمٹ کے موقع پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ بیلا روس اور ایران کو مستقل رکن بنانے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ اس وقت ایس سی او کی دو آفیشل زبانیں روسی اور چینی ہیں لیکن رواں برس نکات میں انگریزی کو بھی ایس سی او کو زبان کے طور پر شامل کیے جانے پر بات چیت کی جائے گی۔
وزرا خارجہ کونسل کے اجلاس میں سالانہ سربراہان مملکت کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے گا۔
جمعرات کی شام شنگھائی تعاون تنظیم کے میزبان ملک کی جانب سے ثقافتی شب کا انعقاد کیا جائے گا۔ جس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو سیکرٹری خارجہ کے ہمراہ شرکت کریں گے۔
جمعہ پانچ مئی کی صبح اجلاس کے مقام پر تمام وزرائے خارجہ اکٹھے ہوں گے جہاں ان کا پہلے گروپ فوٹو بنایا جائے گا اس کے بعد باضابطہ تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گا۔
جمعے کی سہ پہر حتمی اعلامیے پر تمام رکن ممالک دستخط کریں گے جس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
اعلامیے کے بعد پروگرام کے مطابق بلاول بھٹو پاکستانی میڈیا سے بات چیت کریں گے اور پھر واپس وطن روانہ ہو جائیں گے۔
وزیر خارجہ دورہ: ’یہ کوئی بڑا بریک تھرو نہیں‘
انڈپینڈنٹ اردو سے سابق سفیروں سے بلاول بھٹو زرادی کے دورہ انڈیا کے حوالے سے رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ماہرین کے خیال میں اس دورے کا مرکز ایس سی اور ہے انڈیا نہیں لہذا تعلقات میں کوئی زیادہ بہتری کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔
سابق سفیر اور انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالاباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان انڈیا تعلقات پہ اس دورے کا کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا چونکہ دو طرفہ ملاقات تو انڈین ہم منصب سے پاکستانی وزیر خارجہ کی متوقع نہیں ہے۔ ہاتھ تو وہ ملا لیں گے لیکن میں اس میں کوئی بہت بڑا بریک تھرو نہیں دیکھ رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالاباسط نے مزید کہا کہ ’اہم یہ ہو گا کہ پاکستان میں اپنی تقریر میں مدعا ثابت کیسے کرے گا۔‘
اسی حوالے سے سابق سفیر آصف درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کی شمولیت اس لیے ہے کہ پاکستان شنگھائی تعاون کا رکن ہے اس کا پاکستان انڈیا تعلقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسی کو امید ہے کہ کوئی برف پگھلے گی۔ لیکن سیاست میں سب ممکن ہے اور کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم کی کیا اہمیت ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کی ایک بڑی علاقائی تنظیم ہے۔ جس کا باقاعدہ قیام سنہ 2001 میں ہوا۔
اس سے قبل 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن ممالک تھے جنہیں شنگھائی فائیو بھی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی اراکین میں چین، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔
جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ دیا گیا کیونکہ اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔
اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا۔ بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔
سنہ 2017 میں ایس سی او کانفرنس آستانہ میں ہوئی جہاں انڈیا اور پاکستان کو بھی مستقل رکن کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا جس کے بعد رکن ممالک کی تعداد اب آٹھ ہو چکی ہے۔ ان کے علاوہ افغانستان بیلا روس، ایران اور منگولیا مبصر رکن ممالک ہیں جبکہ نیپال، ترکی، آذربائیجان، ارمینیا، کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔
فارن افیئر کے مطابق کچھ کثیر الجہتی تنظیموں میں جن میں بھارت اور پاکستان دونوں شامل ہیں، اسلام آباد کو نقصان ہے کیونکہ نئی دہلی ان میں سب سے طاقتور رکن ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کو لے لیجیے۔
لیکن شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کا اثر و رسوخ اس کے روایتی حریف چین کی موجودگی کی وجہ سے محدود ہے۔ یوکرین کی جنگ نے ماسکو کو بیجنگ کے قریب لا کھڑا کیا ہے جس کا مطلب شنگھائی تعاون تنظیم میں روسی اثر و رسوخ میں کمی اور چین کے لیے مزید طاقت ہو سکتی ہے۔
مضمون کے مطابق نئی دہلی اسلام آباد میں ایک کمزور اور غیر مقبول انتظامیہ کے ساتھ بات چیت پر تیار نہیں ہوگا، خاص طور پر جب انڈین انتخابات میں صرف ایک سال باقی ہے۔
پاکستان میں بھی عام انتخابات اکتوبر میں ہونے والے ہیں۔ اور پاکستان کی حکومت اپنی کشمیر پالیسیوں اور انڈین مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی وجہ سے انڈین انتظامیہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر سنگین سیاسی نقصان کا خطرہ مول نہیں لے گی۔
گوا اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے اسلام آباد تنظیم کے اندر اپنا اثر و رسوخ کھونے کا خطرہ مول لے سکتا تھا، جس میں وہ ارکان بھی شامل ہیں جن کے ساتھ وہ گہرے تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے جو بالآخر نئی دہلی کے اثر و رسوخ کو محدود کر دے گا۔