اقوام متحدہ کی پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں افغانستان میں طالبان حکمرانوں کی جانب سے شہریوں کو سرعام پھانسی دینے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس طرح کی کارروائیاں روکیں۔
خبررساں ایجنسی ایسویس ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف گذشتہ چھ ماہ کے دوران افغانستان میں 274 مردوں، 58 خواتین اور دو لڑکوں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔
ادارے کی انسانی حقوق کی سربراہ فیونا فریزر کا کہنا ہے: ’جسمانی سزا تشدد کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور اسے ختم کیا جانا چاہیے۔‘ انہوں نے پھانسیوں پر بھی فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔
اس کے جواب میں طالبان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے قوانین اسلامی اصولوں کے مطابق طے کیے گئے ہیں اور افغانوں کی بھاری اکثریت ان پر عمل کرتی ہے۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا: ’انسانی حقوق کے بین الاقوامی اور اسلامی قانون کے درمیان تصادم کی صورت میں حکومت اسلامی قانون پر عمل کرنے کی پابند ہے۔‘
طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں اس طرح کی سزاؤں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی بتدریج تعلیم اور ملازمت کی پابندیاں عائد کی ہیں۔
ان پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس سے ایک ایسے وقت میں افغانستان کی عالمی تنہائی میں اضافہ ہوا جب اس کی معیشت تباہ اور انسانی بحران بدتر ہو گیا ہے۔
جسمانی سزا کے بارے میں پیر کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی سے قبل اور بعد میں طالبان کا طرز عمل درج ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سرعام کوڑے مارے جانے کی پہلی اطلاع اکتوبر 2021 میں شمالی صوبے کاپیسا میں ملی تھی۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس کیس میں زنا کے مرتکب ایک عورت اور مرد کو علما اور مقامی طالبان حکام کی موجودگی میں سرعام 100 کوڑے مارے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان حکام نے دسمبر 2022 میں قتل کے جرم میں سزا یافتہ ایک افغان کو پہلی بار سرعام سزائے موت دی۔
سزائے موت مغربی صوبے فراہ میں مقتولہ کے والد کی رائفل سے سینکڑوں افراد اور طالبان کے اعلیٰ حکام کے سامنے دی گئی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ملک کی تین اعلیٰ ترین عدالتوں اور طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کی منظوری کے بعد سزا پر عمل درآمد کا فیصلہ ’بہت احتیاط‘ سے کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نومبر میں جب ذبیح اللہ مجاہد مجاہد نے ایک ٹویٹ میں ججوں اور ان کے اسلامی قانون کے استعمال کے متعلق سپریم لیڈر کے بیانات کو دوہرایا، اس کے بعد سے عدالتی جسمانی سزاؤں کی تعداد اور باقاعدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس ٹویٹ کے بعد سے یو این اے ایم اے نے عوام کے سامنے سزاؤں کے کم از کم 43 واقعات ریکارڈ کیے ہیں، جن میں 274 مرد، 58 خواتین اور دو لڑکے شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر سزائیں ’گھر سے فرار‘ ہونے اور زنا کے متعلق تھیں۔ دیگر مبینہ جرائم میں چوری، ہم جنس پرستی، شراب نوشی، دھوکہ دہی اور منشیات کی سمگلنگ شامل ہیں۔
طالبان کے مقرر کردہ ڈپٹی چیف جسٹس عبدالمالک حقانی نے گذشتہ ہفتے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ طالبان کی سپریم کورٹ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک 175 فیصلے جاری کیے ہیں، جن میں سے 79 کوڑے مارنے اور 37 سنگسار کرنے کے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرح کے فیصلوں میں مبینہ متاثرہ یا کسی جرم کے شکار فرد کے رشتہ دار کو حق ہوتا ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے یا معاف کر دے۔
عبدالمالک حقانی نے کہا کہ طالبان قیادت اس طرح کی سزائیں دینے کے لیے پرعزم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2001 میں امریکہ کی جانب سے طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد انہوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں جسمانی سزاؤں اور پھانسیوں کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے خلاف بغاوت کی۔
جب طالبان نے 2010 اور اگست 2021 کے درمیان اپنی شورش کے عروج کے دوران اپنی سزائیں سنائیں۔ یو این اے ایم اے نے کم از کم 182 واقعات درج کیے، جس کے نتیجے میں 213 افراد کی موت ہوئی اور 64 زخمی ہوئے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے کام کرنے پر پابندی کو انسانی حقوق کی ناقابل قبول خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
پانچ اپریل کو افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا تھا کہ اقوام متحدہ کے مشن میں کام کرنے والی افغان خواتین اب کام پر نہیں آ سکتیں۔
امداد فراہم کرنے والے اداروں نے متنبہ کیا ہے کہ خواتین کے کام کرنے پر پابندی سے افغانستان میں فوری انسانی امداد فراہم کرنے کی ان کی صلاحیت متاثر ہوگی۔
اس سے قبل طالبان نے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے سکول جانے اور خواتین کے گھر سے باہر کے زیادہ تر کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
دسمبر میں انہوں نے افغان خواتین کے مقامی اور غیر سرکاری گروپوں میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
1996 سے 2001 تک طالبان کی پہلی حکومت کے دوران حکام کی جانب سے جرائم میں ملوث افراد کو عوام کے سامنے سزا دی جاتی تھی، جس پر اکثر کھلے مقامات جیساکہ کھیلوں کے سٹیڈیم اور چوراہوں میں عمل کیا جاتا تھا۔