طالبان حکومت نے سخت اسلامی قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے شمال مشرقی افغانستان میں 19 افراد کو زنا، چوری اور گھر سے بھاگنے پر کوڑوں کی سزا دی ہے۔
اس بات کا اعلان اتوار کو ملک کی سپریم کورٹ نے کیا جو سرکاری طور پر ان سزاؤں کی بحالی کی پہلی تصدیق ہے۔
طالبان نے گذشتہ سال اگست میں افغانستان کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ زیادہ اعتدال پسندی کا مظاہرہ کریں گے اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے نرمی برتیں گے۔
تاہم سپریم کورٹ کے ایک اہلکار عبدالرحیم راشد نے اتوار کو بتایا کہ 11 نومبر کو شمال مشرقی صوبہ تخار کے شہر تالقان میں 10 مردوں اور نو خواتین کو مختلف جرائم میں 39-39 کوڑے مارے گئے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے رپورٹ کیا کہ ان افراد کو ’جرائم‘ کے لیے 11 نومبر کو شہر کی مرکزی مسجد میں بزرگوں، علما اور مقامی رہائشیوں کی موجودگی میں کوڑے مارے گئے تھے۔
طالبان ترجمان نے 17 نومبر کو کہا تھا کہ وہ اسلامی قانون یا شریعت کی اپنی سخت تشریح پر قائم رہیں گے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گروپ کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخون زادہ نے چند روز قبل طالبان کے ججوں سے ملاقات کی اور انہیں اپنے فیصلوں میں شریعت کے نفاذ کی ہدایت کی۔
To say to a 12 year old girl, your brother can go to school but you can’t. How can we accept that?
— Shabnam Nasimi (@NasimiShabnam) November 12, 2022
418 days since the Taliban BANNED teenage girls from going to school. In the name of humanity, we must not turn our backs on the women and people of Afghanistan. pic.twitter.com/0aeyXr2xDi
سوشل میڈیا پر گذشتہ سال اگست کے بعد سے کئی بار ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آتی رہی ہیں جن میں طالبان کی جانب سے لوگوں کو سزا دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے بیان نے ان خدشات کی تصدیق کر دی ہے کہ طالبان افغانستان میں شریعت کی سخت سزاؤں کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔
گذشتہ 15 مہینوں میں طالبان حکام کی لوگوں کو مختلف جرائم کی سزا دینے کی ویڈیوز اور تصاویر اکثر سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں حالانکہ حکام نے ان واقعات کی کبھی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب طالبان 1990 کی دہائی کے دوران پہلی بار اقتدار میں تھے تو انہیں زنا اور چوری کے الزام میں سرعام پھانسیوں اور سرعام کوڑے مارنے پر دنیا بھر سے مذمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہاں تک کہ موجودہ حکومت کے دوران طالبان نے خواتین کے حقوق کے گروپس اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جاری رکھی۔
دریں اثنا سپریم کورٹ کے عہدیدار نے ایک بیان میں کہا کہ جن 19 افراد کو کوڑے مارے گئے تھے انہیں سزا سنانے سے پہلے دو عدالتوں میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ کوڑوں کی سزا ملنے کے بعد ان 19 افراد کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔
© The Independent