افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے متعلق اپنا فرض ادا کر دیا ہے لیکن مستقبل میں بھی وہ اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
اسلام آباد میں پیر کو ایک تھنک ٹینک اسلام آباد سٹرٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی تقریب سے خطاب میں افعان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ہمسایہ ممالک کے چیلنجز ایک دوسرے سے مختلف نہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اب چلیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ماضی میں بھی ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی کوشش کی۔ یہ دو سال پرانا نہیں بلکہ ہمارے اقتدار میں آنے سے پہلے کا مسئلہ ہے۔ ہماری کوشش ہے امن قائم کرنے کی۔ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان میں آگ بڑھک رہی ہو۔ ہم نے پہلے بھی کیا اور آگے بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ایک روز قبل افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کو روکنے میں افغانستان کی عبوری حکومت ’مکمل تعاون‘ کرے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان میں کالعدم تحریک طالبان ’ٹی ٹی پی‘ کے جنگجو ملوث ہیں۔ اسلام آباد کابل سے یہ مطالبہ بھی کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے ایک بیان کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ’دہشت گردی اور انتہا پسندی‘ سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے دونوں پڑوسی ممالک تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
جنرل عاصم نے ’مشترکہ مفاد کے ان امور پر افغان عبوری حکومت کی جانب سے مکمل تعاون اور عزم پر زور دیا۔‘
افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ بننے کے بعد امیر خان متقی کا اسلام آباد کا یہ دوسرا دورہ تھا۔ اس سے قبل وہ نومبر 2021 میں پاکستان آچکے ہیں۔ اس مرتبہ ان کا یہ دورہ چار روزہ تھا جس میں انہوں نے ناصرف پاکستان سیاسی و عسلری قیادت سے ملاقاتیں کیں بلکہ چین کے ساتھ سہہ فریقی مذاکرات میں بھی شریک ہوئے۔
پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بارے میں افغان طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ’امن کے لیے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ہم اس بارے میں پاکستانی حکام سے بات چیت کی۔ ہم دوبارہ بھی کریں گے اور پھر بھی کریں گے اور کوشش یہ ہے کہ مسائل سفارتی بات چیت اور مذاکراتی راستوں سے حل ہوں۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں حالات مزید بہتر ہو جائیں گے۔‘
افغان رہنما کا کہنا تھا کہ ’افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات، تجارت، راہداری اور اقتصادی معاملات میں بے شمار مسائل تھے۔ دونوں ممالک کی معاشی معاملات کو اکثر سیاسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا رہا، جس سے دونوں ممالک کو میسر بڑے معاشی مواقع ضائع ہوتے رہے۔‘
امیری خان متقی کا کہنا تھا کہ ان کے ملک میں کوئی بھی دہشت گرد گروپ وجود نہیں رکھتا لہذا کسی کے خلاف استعمال کا کوئی امکان نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے دولت اسلامیہ یا داعش کا کوئی ذکر نہیں کیا جن کے خلاف افغانستان کا سرکاری میڈیا ہر دوسرے روز کارروائیوں کی خبر دیتا رہتا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی تقریر کا زیادہ تر مرکز افغانستان اور اس خطے میں اقتصادی تعاون تھا۔
پاکستان کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ کے بارے میں انہوں نے محض اتنا کہا کہ وہ اسلام آباد باضابطہ حکومت کی سطح پر دعوت پر آئیں ہیں، انہوں نے رسمی ملاقاتیں کیں ہیں جہاں تک تسلیم کیے جانے کا سوال ہے تو یہ پاکستان سے پوچھا جائے۔‘
امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان میں ان کی حکومت کو بیس ماہ ہوچکے ہیں۔ ’اللہ کے کرم سے بہت سے مسائل پر قابو پالیا ہے۔ دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات میں پابندیاں بڑا چیلنج ہیں، پابندیوں کی وجہ سے بینکوں کو خام مال درآمد کرنے میں مشکلات ہیں جب کہ بیروزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے ورلڈ بینک کی رپورٹ کا ذکر بھی کیا جس کے مطابق افغانستان میں مہنگائی کم اور افغان کرنسی کی قدر مستحکم ہوئی، معیشت میں بہتری آئی اور افغان حکومت نے بجٹ بیرونی امداد کے بغیر پیش کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان اور وسط ایشیا سے معاشی تعلقات استوارکرنا چاہتے ہیں۔
افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان گذشتہ دو سال سے سیاسی اور معاشی چیلنجز سے گز رہے ہیں۔ دونوں میں ترقی کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان ہمارا ہمیشہ سے فوکس رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ اقتصادی رابطوں میں شروع سے دلچسپی رہی ہے۔ سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود پاکستان سے تجارتی سلسلہ جاری رہا، امید ہے اقتصادی روابط آگے بھی قائم رہیں گے۔‘
خواتین کے حقوق سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے، ان کی حکومت نے یا تحریک طالبان افغانستان نے کبھی بھی خواتین کی تعلیم کو غیراسلامی قرار نہیں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں ایک کروڑ افغان لڑکے اور لڑکیاں مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ’خواتین مدارس بھی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ ایک حد تک چل رہا ہے۔‘
امیر متقی کا کہنا تھا کہ پوری دنیا افغانستان کو اب تسلیم کر رہی ہے، معیشت کا دباؤ پوری دنیا کی طرح ہم پر بھی ہے، ہم نے 1.9 ارب ڈالرتجارت کو بڑھایا، اس کی ایک وجہ کرپشن سے پاک معاشرہ ہے، ہماری توجہ افغانستان کی تجارت کوبڑھانا اورخطے کے ساتھ راہداری کو مزید بہتربنانا ہے، افغانستان کے پاس قدرتی وسائل ہیں، مل کرکام کرنے سے معیشت اور بیروزگاری سمیت کئی مسائل پرقابو پایا جاسکتا ہے۔
اس مرتبہ طالبان وزیر نے اپنے دورے میں میڈیا کو دور رکھا اور اس بابت ایک سوال کے جواب میں بھی انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اس تقریب کو بھی ’پبلک ٹاک‘ کا نام دیا گیا تھا لیکن اس میں شرکت مدعو کیے جانے سے مشروط تطی۔ تاہم اس تقریب کو سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔