صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے جناح ہاؤس جو کور کمانڈر ہاؤس بھی کہلاتا ہے، میں نو مئی کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے پاکستان فوج کی ٹیمیں پہنچ چکی ہیں۔
جناح ہاؤس کو نو مئی کی شام کچھ مشتعل افراد نے نشانہ بنایا اور اس گھر میں داخل ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور گھر کے اندر آگ بھی لگائی گئی۔
یہ واقعہ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کے بعد ہوا۔
جناح ہاؤس میں اس وقت رہائش کے تمام کمرے اور سامان جل کر خاکستر ہو چکا ہے جن میں دیواروں پر لگے سوئچ بورڈز تک شامل ہیں۔
عمارت کے اندر اور باہر کی دیواریں سیاہ ہو چکی ہیں جبکہ یہاں موجود ایک مسجد جسے ’اولڈ مسجد‘ کہا جاتا ہے اس کے دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کی جالیاں بھی جل چکی ہیں۔
اس گھر میں واقع دونوں جمز میں موجود تمام سامان جل چکا ہے جبکہ گھر کے سوئمنگ پول کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے اور اس کی گھڑیوں کو بھی توڑ دیا گیا۔
گھر کی انیکسی اور پارکنگ لاٹ بھی آگ سے جھلس چکے ہیں۔
اس گھر میں قائد اعظم کی کچھ یادگار اشیا بھی موجود تھیں جس میں ان کا پیانو اور تصاویر شامل تھیں۔ یہ چیزیں بھی مشتعل افراد کے ہاتھوں جل چکی ہیں۔
اس گھر کی باہر کی دیوار پر بھی قائد اعظم کی پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ کچھ تصاویر شیشے کے فریم میں آویزاں کی گئیں تھیں، ان تصاویر کو بھی توڑ دیا گیا ہے۔
اس گھر کی جانب آنے والے عزیز بھٹی روڈ اور دوسری جانب سے الف لام میم چوک کی جانب سے اس گھر کو آنے والے راستوں کو ٹریفک کے لیے فی الحال بند کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان فوج کے اہلکاروں کے مطابق ’اب تک یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ تاہم ٹیمیں پہنچ چکی ہیں جو اس بات کا تعین کریں گی کہ گھر اور اس میں موجود اشیا کے نقصان کا تخمینہ کیا ہے۔‘
جناح ہاؤس کی تاریخ کی بات کریں تو 4.68 ایکڑ پر محیط یہ گھر دراصل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ملکیت تھا جو انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے خریدا تھا۔
پاکستان فوج کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ’قائد اعظم نے یہ گھر موہن لال نامی شخص سے 12 اکتوبر 1943 کو ایک لاکھ 62 ہزار پانچ سو روپے میں خریدا۔‘
قائد اعظم اس گھر میں کبھی رہائش نہ رکھ سکے کیونکہ وہ جب بھی لاہور آتے تو وہ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ کی ڈیوس روڈ پر واقع رہائش گاہ پر ٹھہرتے۔
1944 میں ڈپٹی کمشنر لاہور نے یہ گھر وقتی طور پر فوج کے استعمال کے لیے لیا اور اسے آفسرز میس کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
تقسیم ہند تک یہ آفیسرز میس کے طور پر ہی استعمال ہوا لیکن اس کے بعد قائد اعظم نے اپنے نمائندے مراتب علی جو کہ برٹش انڈیا آرمی کے کنٹریکٹر تھے اور ان کے بیٹے واجد علی کے ذریعے اس گھر کو تقسیم ہند سے قبل واپس اپنی ملکیت میں لینے کی جدو جہد کی اور بالآخر 1948 میں یہ گھر انہیں واپس مل گیا۔
قائد اعظم کے انتقال کے بعد 1950 میں یہ بنگلہ وزارت دفاع نے پانچ سو روپے کی لیز پر لیا اور اسے جنرل آفیسر کمانڈنگ 10 ڈویژن کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
1959 میں وزارت دفاع نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح سے یہ گھر تین لاکھ 50 ہزار روپے میں خرید لیا۔
1966 میں اس گھر کو بطور کور کمانڈر ہاؤس استعمال کیا جانے لگا اور 1976 میں اس گھر کو جناح ہاؤس کا نام دیا گیا۔