اسرائیل اور غزہ کے درمیان جمعرات کو شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے باعث فلسطین کے محصور علاقے میں 29 شہری جان سے گئے اور اسرائیل میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس پرہجوم ساحلی پٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ منگل سے اسرائیلی فوج کے فضائی حملوں میں فلسطینی شہریوں سمیت کئی بچے اور عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے راکٹ حملے میں وسطی اسرائیلی شہر میں ایک شخص مارا گیا اور کم از کم دو افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیل میں دیگر تین افراد کو چھرے کے وار سے چوٹیں آئیں۔
مصر، اسرائیل اور فلسطینی گروپ اسلامک جہاد کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں میں ثالثی کر رہا ہے جبکہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے ’فوری جامع جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ نے جنگ بندی کے واضح مطالبے سے گریز کیا لیکن محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ اموات ’افسوسناک اور دل دہلا دینے والی‘ ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ’تشدد میں کمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘
جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کا کہنا ہے کہ ’خونریزی اب ختم ہونی چاہیے‘ اور اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ’غزہ میں پہلے سے ہی مشکل انسانی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
اسلامک جہاد کے ایک قریبی ذرائع نے بعد میں انکشاف کیا کہ ’جنگ بندی کا حتمی فارمولا‘ مصر میں زیر بحث ہے۔
تاہم اسرائیلی فوج نے آدھی رات کے قریب کہا تھا کہ وہ اسلامی جہاد کے اہداف پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی جانب سے بدھ سے اب تک اسرائیل پر 620 راکٹ داغے ہیں جبکہ آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کے ذریعے 179 راکٹ کو روکا گیا۔
فوج کا کہنا ہے کہ غزہ سے داغے گئے 25 فیصد راکٹ اسی علاقے میں گرے جس کے نتیجے میں تین بچوں سمیت چار افراد مارے گئے۔ اے ایف پی فوری طور پر فلسطینی گروپ اسلامک جہاد یا حماس کی طرف سے اس معاملے کی تصدیق حاصل نہیں کر سکی ہے۔
غزہ میں دکانیں بند ہیں اور سڑکیں بڑی حد تک خالی ہیں۔
اسلامک جہاد نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حالیہ دنوں میں ہوئے حملوں سے ان کے پانچ رہنما مارے گئے ہیں، جن میں ایک راکٹ لانچ یونٹ کے کمانڈر علی غالی کے نائب احمد ابو دقّہ بھی شامل ہیں، جو جمعرات کو اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جمعرات کو غزہ میں 191 اہداف پر فائرنگ کی ہے۔
شدت پسند تنظیم پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کا کہنا ہے کہ اس کے بھی چار جنگجو مارے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) نے جمعرات کی شام کہا کہ اس نے فلسطینی علاقے میں 26 افراد کی اموات کی اطلاع دی ہے جن میں 13 عام شہری، جن میں سے سات بچے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلح گروہوں کے چار ارکان اور نو دیگر افراد شامل ہیں جن کی حالت کا ابھی تک تعین نہیں کیا گیا۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے تیسرے روز بھی جاری ہیں اور فلسطین میں اموات کی تعداد 30 تک پہنچ گئی ہے۔
فلسطینی شدت پسند گروپ اسلامک جہاد کی جانب سے جمعرات کو اسرائیل کی جانب طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ داغے جانے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے اسلامک جہاد کے راکٹ لانچروں کو نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق غزہ کی پٹی میں لڑائی سے کم از کم 30 فلسطینی مارے گئے ہیں، جن میں سات بچے اور چار خواتین شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج اور فلسطینی مرکز برائے حقوق کے مطابق کم از کم تین بچے کی موت فلسطین کی حدود سے چلائے گئے راکٹوں سے ہوئی۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 90 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔
جنگ بندی کی کوششیں
اے ایف پی کے مطابق اسلامی جہاد کے ذرائع نے بتایا کہ گروپ کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ محمد الہندی مصری انٹیلی جنس حکام سے بات چیت کے لیے جمعرات کو قاہرہ پہنچے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصری ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ قاہرہ کا ایک سکیورٹی وفد جمعرات کو تل ابیب پہنچے گا جہاں وہ اسرائیلی حکام کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کرے گا۔
اسرائیلی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فریقین کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصر مصروف ہے جس کا مقصد دشمنی کو روکنا ہے۔
غزہ پر حکومت کرنے والی حماس اور اسلامک جہاد دونوں کو اسرائیل اور امریکہ دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔
رواں ہفتے غزہ میں ہونے والی جھڑپیں اگست میں تین روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد سے بدترین ہیں جن میں 49 فلسطینی جان سے گئے تھے۔
فلسطین کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جمعرات کو مغربی کنارے کے شہر قباتیہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے دو فلسطینی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
گذشتہ سال کے آخر میں بنیامین نتن یاہو کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے اور وہ انتہائی دائیں بازو اور الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں کے اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔
اسرائیل کئی دہائیوں میں اپنے سب سے بڑے داخلی سیاسی بحران سے بھی ہل کر رہ گیا ہے، کیونکہ انصاف کے نظام میں اصلاحات کے منصوبوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان اصلاحات کی قیادت نیتن یاہو کر رہے ہیں، جنہیں خود عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔