اسرائیلی جیل حکام نے بتایا ہے کہ فلسطینی اسلامک جہاد گروپ سے وابستہ خضر عدنان منگل (دو مئی) کو 87 دن کی بھوک ہڑتال کے بعد انتقال کر گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل نے کہا کہ خضر عدنان نے ’میڈیکل ٹیسٹ اور طبی علاج کروانے سے انکار کر دیا‘ اور منگل کی صبح ’اپنے سیل میں بے ہوش پائے گئے۔‘ انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی موت کی تصدیق کردی گئی۔
فلسطینی اسلامی جہاد گروپ کے اس اعلان کے بعد کہ خضر عدنان کی موت کا جواب دیا جائے گا، اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی علاقے کی طرف فائر کیے گئے تین راکٹ کھلے علاقوں میں گرے۔ اسرائیل میں غزہ کی پٹی سے منسلک علاقوں میں سائرن بجنے لگے اور رہائشیوں کو پناہ کے لیے بھیج دیا گیا۔
غزہ میں قیدیوں کی ایسوسی ایشن نے روئٹرز کو بتایا: ’خضر عدنان کو نہایت سفاکی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔‘
45 سالہ خضر عدنان کو اس سال پانچ فروری کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین کے رہائشی اور اسلامک جہاد گروپ کی ایک سرکردہ شخصیت تھے۔
اسلامک جہاد گروپ، حماس کی طرح فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی مخالفت کرتا ہے اور اسرائیل کی تباہی کی وکالت کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق خضر عدنان کو اسرائیل نے 12 مرتبہ حراست میں لیا اور انہوں نے تقریباً آٹھ سال قید میں گزارے، جن میں سے زیادہ تر انتظامی حراست میں گزرے۔ انتظامی حراست کے دوران مشتبہ افراد کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید رکھا جاتا ہے۔
اسرائیل نے خضر عدنان پر عسکریت پسندی کی حمایت، عسکریت پسند گروپ سے وابستگی اور اکسانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے 2004 سے لے کر اب تک پانچ بھوک ہڑتالیں کیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق خضر عدنان نے اپنی نام نہاد انتظامی حراست کے خلاف 2015 میں بھی 55 دن کی ہڑتال کی تھی۔
حالیہ برسوں میں کئی فلسطینیوں نے انتظامی حراست میں رکھے جانے کے خلاف طویل بھوک ہڑتال کی ہے۔ زیادہ تر کیسز میں، اسرائیل نے بالآخر قیدیوں کی صحت خراب ہونے کے بعد انہیں رہا کر دیا اور کسی کی بھی زیر حراست موت نہیں ہوئی، لیکن بہت سے لوگوں کو ناقابل تلافی اعصابی نقصان ضرور پہنچا ہے۔