’ایمرجنسی‘ کب لگائی جاتی ہے اور نفاذ کا قانون کیا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے چند قانونی ماہرین سے بات کی ہے کہ ’ایمرجنسی قانون‘ کیا ہے، کیوں لگائی جاتی ہے اور ایمرجنسی لگانے کے بعد حکومتی معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں۔

اسلام آباد پولیس 8 مارچ 2023 کو پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے حالات رہے تو ملک میں ’ایمرجنسی‘ بھی لگ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس میں نجی ٹی وی چینل نے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایمرجنسی کے نفاظ پر بھی مشاورت ہوگی۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے مختلف حلقوں میں بازگشت تو سنی جا سکتی ہے لیکن ابھی تک وفاقی حکومت کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاظ کے حوالے سے واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے چند قانونی ماہرین سے بات کی ہے کہ ’ایمرجنسی قانون‘ کیا ہے، کیوں لگائی جاتی ہے اور ایمرجنسی لگانے کے بعد حکومتی معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں۔

ایمرجنسی لگانے کا قانون کیا ہے؟

پاکستان میں ایمرجنسی یا عام لفظوں میں ’گورنر راج‘ کے نفاذ کے حوالے سے آئین پاکستان کی شق نمبر 232 سے لے کر شق نمبر 237 تک نفاذ کی وجوہات اور اس کے لگانے کے طریقہ کار کے حوالے سے تفصیل موجود ہے۔

اس کو گورنر راج بھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ صوبوں کے اختیارات گورنر کے سپرد کیے جاتے ہیں اور یا صدر تمام تر معاملات کو دیکھتے ہیں۔

بیرسٹر علی گوہر درانی پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور شاہ درانی خٹک لا فرم کے بانی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئین کے آرٹیکل 232 میں لکھا ہے کہ ایمرجنسی دو وجوہات کی بنا پر لگائی جاتی ہے، جس میں ایک اگر ملک پر کسی بیرون طاقت نے حملہ کیا ہے یا جنگ کی صورتحال ہوں اور دوسرا اس وقت لگے گی جب ملک میں اندرونی طور پر حالات ایسے ہوں جو صوبائی حکومتوں کے کنٹرول سے باہر ہوں۔‘

علی گوہر نے بتایا کہ ’اسی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اگر اندرونی طور پر خراب حالات کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے تو اس کی منظوری صوبائی اسمبلی دے گی تاہم ملک کے صدر کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایمرجنسی لگا سکتا ہے۔‘

تاہم علی گوہر کے مطابق صدر ایمرجنسی کا نفاذ تب ہی کر سکتے ہیں جب وہ پارلیمنٹ میں ایمرجنسی کے نفاذ کی درخواست دے اور وفاقی اسمبلی سمیت سینیٹ بھی اس کی منظوری 10 دن میں دے۔

کیا ایمرجنسی نفاذ کے بعد انسانی حقوق معطل ہوجاتے ہیں؟

آئین کے اسی آرٹیکل کے مطابق ایمرجنسی کے دوران صوبائی حکومتیں اپنا کام جاری رکھ سکتی ہیں تاہم ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پارلیمنٹ سے خصوصی قانون پاس کرا کے اسی کے تحت صوبائی حکومتیں چلائی جاسکتی ہیں۔

صوبوں میں وفاقی حکومت یا خود ایگزیکٹیو آرڈر سے یا گورنر کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو چلائیں گی اور تمام تر اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہوں گے تاہم ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے کچھ اختیارات  کم ہوجاتے ہیں۔

بیرسٹر علی گوہر نےبتایا کہ ’آئین کا آرٹیکل 245 کو اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ  ہے، جس کے تحت فوج کو حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت آئین کے کچھ بنیادی حقوق معطل کیے جاتے ہیں اور اس کے نفاذ کے ساتھ آئین کا آرٹیکل 199 معطل ہوتا ہے جو سیاسی سرگرمیوں، معلومات کے حق، اظہار رائے کی آزادی سمیت دیگر حقوق سے متعلق ہے۔‘

تاہم علی گوہر درانی کے مطابق ایمرجنسی کے دوران بھی چند ہی حقوق معطل کیے جاتے ہیں اور ان حقوق کے حصول کے لیے کوئی بھی شخص عدالت سے رجوع نہیں کر سکتا کیوں کہ عدالت کے پاس وہ اختیار نہیں ہوتا۔

آئین کے مطابق ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے کے بعد اس فیصلے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے اور ایمرجنسی کا نفاذ دو مہنیوں تک ہوتا ہے تاہم اگر پارلیمنٹ توسیع کی منظوری دے تو اس میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

آئین پاکستان کے ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے دوسرے آرٹیکل 233 کے مطابق ایمرجنسی لگنے کے بعد صدر پاکستان کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ کچھ انسانی حقوق کو معطل کریں۔

قانونی ماہر کے مطابق: ’ایمرجنسی کے نفاذ کا ایک اور طریقہ کار بھی آئین کے آرٹیکل 234 میں درج ہے۔ اس شق کے مطابق اگر صوبوں میں آئینی بحران پیدا ہوجائے اور آئین کے تحت صوبے کی حکومت اسے قابو کرنے میں ناکام ہوجائے تو اس صورت میں گورنر صدر پاکستان کو ایمرجنسی لگانے کی درخواست کر سکتا ہے۔

گورنر کے بعد اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ بھی اسی حوالے سے درخواست کرتے ہیں تو صدر پابند ہے کہ وہ اس شق کے تحت ایمرجنسی کا نافذ کریں لیکن اس دوران عدالتی اختیارت میں کمی نہیں آئے گی۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، اور یہ دو مہینوں تک نافذ ہوگی جس کو مزید دو مہینوں اور زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں تک نافذ رکھا جا سکتا ہے۔

اس دوران قومی اسمبلی، صوبے میں معاملات کو چلانے کے لیے قانون سازی بھی کر سکتی ہے اور اسی شق کے مطابق صدر کے پاس بھی اختیار ہوگا کہ وہ قوانین پاس کریں اور صوبائی فنڈ سے معاملات کو چلانے کے لیے اخراجات کی منظوری بھی دے سکتے ہیں۔

معاشی بد حالی کے دوران ایمرجنسی کا نفاذ

ایمرجنسی کے حوالے سے ایک آئین کی شق 235 میں لکھا گیا ہے کہ جب گورنر مطمئن ہوں کہ معاشی حالات خراب ہیں اور حکومتی مشینری چلانا مشکل ہے تو اس صورت میں صدر پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اس کا نفاذ کر سکتا ہے۔

اس قسم کی ایمرجنسی میں وفاقی حکومت ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی، الاونسز میں کمی یا ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے لیکن اس کی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے گی اور زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں تک اس کا نفاذ ہوسکتا ہے۔

ماضی میں کب کب ایمرجنسی نافذ ہوئی ہے؟

سابق صدر اور ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے1999 میں اقتدار پر قبضہ کیا اور کئی سال بعد تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا اور وجہ ملک میں اس وقت جاری دہشت گرد کارروائیاں بتائی گئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت جنرل مشرف نے آئین کو معطل کیا تھا اور سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کیے تھے۔ اس ایمرجنسی کے بعد ملک بھر میں وکلا نے ایک تحریک بھی شروع کی تھی جس میں ملک بھر میں مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

جنرل مشرف کی اس ایمرجنسی کے دوران تین نومبر2007 سے 15 دسمبر تک آئین معطل رہا اور اس دوران مختلف ججوں سمیت اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔

بیرسٹر علی گوہر نے بتایا کہ ’ایمرجسنی کب لگائی جا سکتی ہے، یہ ایک بہت سبجیکٹیو موضوع ہے کیونکہ اگر آج کل ایمرجنسی لگانے کی بات کی جاتی ہے تو ابھی تو صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہیں اور نہ جنگ کی صورتحال ہے لیکن گورنر کی ایڈوائس پر پارلیمنٹ ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے۔‘

ایمرجنسی اور مارشل لا میں کیا فرق ہے؟

بیرسٹر علی گوہر درانی کے مطابق ایمرجنسی کا نفاذ ایک آئینی عمل ہے اور آئین ہی کی شق کے تحت نافذ کی جاتی لیکن مارشل لا ایک غیر آئینی عمل ہے اور مارشل لا میں ایک منتخب حکومت کو بے دخل کر کے فوج حکومت پر قابض ہوجاتی ہے۔

گوہر درانی نے بتایا کہ ’آئین پاکستان میں فوج کا حکومت کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کا جواز نہیں ہے لیکن مارشل لا میں آئین کو معطل کیا جاتا ہے اور فوج حکومت چلانے آجاتی ہے۔‘

ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد کیا انتخابات ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر گوہر درانی نے بتایا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد آئین کا آرٹیکل 217 معطل ہوجاتا ہے جو سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ہے، تو جب ایمرجنسی ہو اور یہ حق معطل ہو تو انتخابات نہیں ہوسکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست