سری لنکا کے صدر گوتابایا راجاپاکشے نے ملک میں نافذ ایمرجنسی کو منسوخ کر دیا ہے، جو انہوں نے بدترین معاشی بحران پر عوامی مظاہروں اور مستعفی ہونے کے مطالبے کے بعد لگائی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صدر گوٹابایا راجا پاکشے استعفے کا مطالبہ ماننے سے مسلسل انکاری ہیں، حتیٰ کہ حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے بھی ان کو مشورہ دیا تھا کہ عبوری حکومت کو ان کی جگہ لے لینی چاہیے۔ دوسری صورت میں پر تشدد واقعات کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔
راجا پاکشے نے منگل کی رات جاری کیے گئے حکم نامے میں کہا کہ انہوں نے ہنگامی احکامات کو منسوخ کر دیا ہے۔ ان ایمرجنسی احکامات میں صدر کو امن عامہ کے تحفظ کے لیے کام کرنے کا وسیع اختیار دیا گیا تھا، جس میں کسی بھی قانون کو معطل کرنا، حراستوں اور جائیداد کی ضبطگی شامل تھا۔
راجا پاکشے نے گذشتہ ہفتے دارالحکومت کولمبو میں اپنے گھر کے قریب عوام کے مظاہرے کے بعد ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مظاہرے ابتدا میں گھریلو گیس، پیٹرول، بجلی اور پاؤڈر والے دودھ جیسی اشیائے ضروریہ کی قلت کے خلاف شروع ہوئے تھے، جنہوں نے بعدازاں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر مظاہرین نے صدر سے استعفے کا مطالبہ کر ڈالا۔
پیر کو ٹی وی اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصاویر میں دیکھا گیا کہ مظاہرین حکمران پارٹی کے اراکین اسمبلی کے دفاتر اور گھروں میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پانچ روزہ ایمرجنسی کے دوران تشدد اور توڑ پھوڑ کے نتیجے میں 60 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس کی تحویل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سری لنکا میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
عوام کے غصے اور تنقید کے باوجود صدر اور ان کے بڑے بھائی وزیراعظم مہندا راجا پاکسے سری لنکا میں اقتدار پر قابض ہیں۔
سری لنکا کی کابینہ نے اتوار کی رات استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد راجا پاکسے نے تمام جماعتوں کو اتحادی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی،لیکن مرکزی اپوزیشن پارٹی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظاہروں میں شدت کے بعد منگل کو ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں قانون سازوں نے سپیکر سے کہا تھا کہ وہ ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔
منگل کو حکومتی اتحاد کے تقریباً 40 قانون سازوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب ہدایات کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے، جس سے حکومت نمایاں طور پر کمزور ہو گی۔
اے ایف پی کے مطابق اگرچہ حکومت اب اقلیت میں ہے، لیکن اس بات کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا ہے کہ اپوزیشن کے قانون ساز اسے فوری طور پر گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کریں گے۔
سری لنکا قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ درآمدی سامان کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے۔
سری لنکا میں شہریوں کو کئی مہینوں سے ایندھن، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات خریدنے کے لیے لمبی قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک سے آتے ہیں اور ان کی ادائیگی کرنسی میں کی جاتی ہے۔
راجا پاکشے نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ ان کی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور قرضوں کے لیے چین اور بھارت کا رخ کیا ہے جبکہ انہوں نے لوگوں سے ایندھن اور بجلی کے استعمال کو محدود کرنے کی اپیل کی تھی۔