ہم تین اچھوت باقی دنیا سے الگ تھلگ دھوئیں بھرے ایک کمرے میں بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔
باہر ملک جائیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اپنا ملک ایک جنت ہے، جہاں کہیں بھی طلب ہونے پہ سکون سے یہ کارروائی کی جا سکتی ہے، بہت کوئی پابندیوں والا علاقہ ہے تو سو پچاس چائے کے لیے پیش کر دیں اور سنجیدہ شکل بنا کے شروع ہو جائیں۔
میری ٹرانزٹ فلائٹ تھی اور اگلی منزل کو جانے والا جہاز چھ گھنٹے بعد چلنا تھا۔
اب کندھے پر اپنا بھاری بھرکم بیگ لٹکائے طویل ایئرپورٹ پر میں خواریاں کاٹ رہا تھا، مقصد اس گیٹ کی تلاش تھی کہ جہاں سے فلائٹ روانہ ہونی تھی۔ گیٹ تک پہنچ گیا تو اگلا مشن قریب ترین سموکنگ لاؤنج ڈھونڈنا تھا تاکہ وہیں کہیں بیگ سمیت خود بھی پارک ہو جاؤں۔
بہت زیادہ لیتھل سموکر نہ ہونے کے باوجود سموکنگ لاؤنج مجھے اس لیے پسند ہے کہ وہاں ایک خاص قسم کا بھائی بہن چارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
جس طرح ٹرین کا سفر کریں اور کبھی آپ کو برتھ مل جائے تو نوٹ کیجیے گا کہ ساتھ والی برتھ کا مسافر دو تین گھنٹے میں آپ کا اچھا بھلا پڑوسی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ یہاں بھی ہوتا ہے۔
اگر آپ ایسے ٹائم سموکنگ لاؤنج میں قدم رکھ رہے ہیں کہ جب آنے جانے والی فلائٹوں کا رش ہے تو عین ممکن ہے بالکل دروازے میں پیر رکھنے برابر آپ کو جگہ ملے۔ سُوٹا لگا کے دھواں آپ لاؤنج میں پھینکیں اور اگلی سانس دروازے سے باہر منہ کر کے کُھلی ہوا میں لیں۔
رش ہو یا نہ ہو، ایک بات طے ہے۔ دنیا بھر کے مصروف ایئرپورٹس پہ لاؤنج میں جاتے ساتھ آپ کو بیٹھنے کے لیے جگہ کبھی نہیں ملے گی۔
سب سے پہلے دروازہ کھولنے پہ شدید دھوئیں بھرا ماحول آپ کو سُنگھائی دے گا۔ آپ سوچیں گے کہ یار ادھر سگریٹ پینا یا نہ پینا برابر ہے۔ پھر آپ بیگ وغیرہ کہیں آس پاس رکھ کے پوزیشن بنائیں گے، ایش ٹرے سے قریب ہوں گے، ابھی آپ کھڑے ہوں گے کہ آپ کے ریڈار میں دور یا قریب کوئی کسمساتا نظر آئے گا، جیسے بس ابھی سیٹ سے اٹھا کہ اٹھا۔ آپ اس کے نزدیک کہیں جگہ تاڑ کے کھڑے ہو جائیں گے اور پانچ دس دھوئیں بھرے منٹوں کے بعد آپ سامان سمیت کامیابی سے پارک ہو چکے ہوں گے۔
کندھے پہ لٹکے بوجھ سمیت چلتے چلتے میری بس ہونے والی تھی کہ ایک لاؤنج کا بورڈ نظر آ گیا۔ لفٹ میں داخل ہوا اور ٹیک لگا کے کھڑا ہو گیا۔ مجھ سے پہلے وہاں دو لوگ موجود تھے۔ ایک گورا اور ایک افریقی۔ اب گورا فل ٹشن میں تھا اپنی روایتی اجنبیت کے ساتھ۔ اس نے جہاں ٹیک لگائی ہوئی تھی وہ دروازہ تھا جو دو منزل اوپر جا کے کھلنا تھا۔ سمجھیے داخل وہ دائیں سے ہوا تھا لیکن اوپر جا کے بایاں دروازہ کھلتا اور جب وہ کھلتا تو گورا صاحب دھڑام سے زمین پہ ہوتے۔ تو افریقی نے انہیں اپنے عرب انگریزی لہجے میں کہا کہ جدھر آپ کھڑے ہیں یہ دروازہ ہے۔ گورا ہٹ گیا لیکن کوئی مسکراہٹ یا شکریہ وغیرہ کہنے کی بجائے بولا ’ہاں، میں جانتا ہوں۔‘
لفٹ کھلی تو میں اور افریقی صاحب اکٹھے لاؤنج میں داخل ہوئے اور حسب روایت ایک کونے میں کھڑے ہو گئے۔ نام وغیرہ پوچھنے کی بجائے اپن لوگ ڈائریکٹ اس گورے کی ’رعونت‘ پہ تبادلہ خیال کرنے لگے۔
اب کیا ہوا کہ تھوڑے فاصلے پہ تین سٹول نما نشستیں خالی ہوئیں، ہم دونوں نے قبضہ جمایا اور گفتگو اس دوران ’نان سموکرز‘ کے ’نازک پن‘ کی طرف مڑ چکی تھی کہ یار کیسے لوگ ہیں، برداشت ہی باقی نہیں رہ گئی اس دنیا میں!
اسی دوران لاؤنج میں کالی چست چرمی جینز پہنے ایک عفیفہ داخل ہوئیں اور سیدھی آ کے تیسری نشست پہ براجمان ہو گئیں۔
انہوں نے لائٹر مانگا، سگریٹ سلگایا، اب ہم دونوں یعنی میں اور وہ افریقی دوست جینٹل مین بن چکے تھے، شکوے، شکایتیں سب بند، کلُ خلاص!
کچھ دیر خاموشی کے بعد خاتون نے اپنا تعارف کروایا، وہ باربرا تھیں اور عراق سے واپس اپنے ملک پولینڈ جا رہی تھیں۔ میرے ساتھ جو دوست تھے وہ ھانی کرار تھے اور کسی ہائی پروفائل میٹنگ کے بعد سوڈان کو لوٹ رہے تھے جو ان کا آبائی ملک تھا۔ وہ ادھر کسی ٹیلی کام کمپنی کے سی ای او تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو اب ہم تین لوگ جو یہاں بیٹھے تھے ان میں ٹائم پاس کرنے کی طلب اور اپنے اپنے لہجے میں انگریزی بول پانے کے علاوہ کچھ مشترک نہیں تھا۔
ہم تینوں کے پاس اگلے سفر سے پہلے چار گھنٹے تھے اور اپنی اپنی دنیا تھی، جس کا ہم نے تعارف کروانا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم کافی تعارفی مرحلے طے کر چکے تھے جن میں باربرا کے بازو پر بنا ’غزال الصحرا‘ کا ٹیٹو اور اس کا بیک گراؤنڈ بھی شامل تھا۔
اب ھانی کی ’آن دا ہاؤس‘ دعوت پہ ہماری تکون نچلی منزل پہ موجود ایک بار منتقل ہو چکی تھی، جہاں باقی لوازمات سمیت ’فروٹ جوس‘ بھی ملتا تھا۔
یہ چار گھنٹے بڑی تیزی سے کٹے، ٹرین کی برتھ والے مسافروں کی طرح ہماری پوری گپ شپ سوڈانی، پاکستانی اور پولش خاندانی اقدار کے گرد گھومی یا اپنی اپنی زندگی کے قابل فخر ٹائپ واقعے ایک دوسرے کو بتاتے رہے۔
وہاں سے روانہ ہوا تو ہم سب نے آپس میں سوشل میڈیا پروفائل ایکسچینج کیے، ایک دوسرے کو مکمل خلوص سے اپنے اپنے ملک آنے کی دعوت دی اور وہی ٹرین کے مسافروں کی طرح ڈاک کے پتے تک شیئر کرنے کے بعد الحمدللہ آج تک ایک دوسرے کی خبر نہیں لی۔
اس وقت بیٹھ کے سوچتا ہوں تو ایسے ہر انکاؤنٹر کی وجہ آج تک صرف ایک تھی، انگریزی زبان!
میں اردو میڈیم کا بچہ تھا، اب بھی انگلش کے کئی لہجے سر پہ سے گزر جاتے ہیں، لیکن سر احمد ندیم، گزرتے وقت اور انٹرنیٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ یہ تینوں مہربان اگر نہ ہوتے تو شاید میں اس سفر پہ روانہ ہی نہ ہو پاتا جس کا ایک چھوٹا سا تجربہ آپ کے سامنے پیش کیا۔
انتہائی ذاتی سی بات ہے لیکن شاید آپ میں سے کسی کے لیے کام کر جائے ۔۔۔ میں نے انگریزی بولنا صرف انگلش فلمیں اور ڈرامے دیکھ کے سیکھا ہے، وہ پرانی باتیں تھیں کہ انگریزی اخبار لگوائیں، اسے الف سے یے تک گھول کے پئیں، نہ!
فارغ وقت میں اگر کتابیں اخبار پڑھنے کا دل نہیں کرتا تو بھیا کوئی بھی اپنی پسند کی انگریزی فلم یا نیٹ فلکس وغیرہ والی سیریز لگائیں، سب ٹائٹل آن کریں اور دیوانہ وار دیکھنا شروع کر دیں۔ تین چار ماہ دیکھیں اور پھر فقیر کو شکریے والا ایک میسج کر دیں۔
افاقہ ہو گا، آزمائش شرط ہے!