سوڈان میں متحارب دھڑوں نے ہفتے کی رات کو ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت پیر سے سات دن کے لیے جنگ بند کر دی جائے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سوڈانی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایف ایف) کے درمیان ہونے والی لڑائی چھٹے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔
اس لڑائی کے نتیجے میں پورا ملک انتشار کا شکار ہے جب کہ 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔
سوڈان کی فوج اور نیم فوجی فورس کے درمیان مذاکرات کروانے والے ممالک سعودی عرب اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے وقت کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے پر پیر کو رات نو بج کر 45 منٹ پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔
اس سے قبل جنگ بندی کے متعدد سابقہ معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔
تاہم تازہ معاہدے کو امریکہ، سعودی عرب اور بین الاقوامی حمایت یافتہ نگرانی کے نظام کے تحت نافذ کیا جائے گا۔ مشترکہ بیان میں اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
جنگ بندی معاہدے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی تقسیم، ضروری خدمات کی بحالی، ہسپتالوں اور ضروری عوامی مراکز سے فورسز کی واپسی پر بھی زور دیا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ ’بندوقوں کو خاموش کروانے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تک بلا روکاوٹ رسائی کا وقت آ چکا ہے۔ میں دونوں فریقوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاہدے کو برقرار رکھیں۔ دنیا کی نگاہیں دیکھ رہی ہیں۔‘
سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں نظم و نسق بگڑ چکا ہے۔
خوراک، نقدی اور ضروری اشیا کے ذخیرے تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ بڑے پیمانے پر لوٹ مار نے بینکوں، سفارت خانوں، امدادی گوداموں اور یہاں تک کہ گرجا گھروں کو بھی متاثر کیا ہے۔
امدادی تنظیموں نے کہا ہے کہ وہ محفوظ راستے اور عملے کے لیے حفاظتی ضمانتوں کی عدم موجودگی میں دارالحکومت خرطوم میں خاطر خواہ مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
فضائی حملے
ہفتے کو عینی شاہدین نے جنوب میں اومدرمان اور شمال میں بحری کے شہروں میں فضائی حملوں کی اطلاع دی ہے۔ یہ دونوں شہر خرطوم سے دریائے نیل کے پار واقع ہیں اور سوڈان کا ’تہرا دارالحکومت‘ تشکیل دیتے ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ کچھ حملے اومدرمان میں سرکاری نشریاتی ادارے کے قریب ہوئے۔
اومدرمان کے نواحی علاقے الصلحا میں مقیم 33 سالہ سوڈانی خاتون ثنا حسن نے روئٹرز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’آج صبح ہمیں بھاری گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا۔ میرا پورا گھر ہل رہا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بہت خوفناک تھا۔ ہر کوئی بستر کے نیچے چھپ گیا۔ جو ہو رہا ہے وہ ڈراؤنا خواب ہے۔‘
آر ایس ایف نے رہائشی علاقوں میں ٹھکانے بنا رکھے ہیں جس کی وجہ سے باقاعدہ فوج اس کے ٹھکانوں کو تقریباً مسلسل فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خرطوم میں عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ وہاں حالات نسبتاً پرسکون ہیں تاہم وقفے وقفے سے فائرنگ کی آواز سنی گئی۔
15 اپریل کو شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں تقریباً 11 لاکھ افراد اندرون ملک اور پڑوسی ممالک میں نقل مکانی کر چکے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق لڑائی میں تقریباً 705 افراد کی جان جا چکی ہے اور کم از کم 5287 زخمی ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں دارفر کے علاقے، نیالا اور زلینجی کے شہروں میں ایک بار پھر زمینی لڑائی میں تیزی آئی ہے۔
دونوں متحارب فریقوں نے جمعے کو دیر گئے بیانات میں ایک دوسرے پر ملک کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک، نیالا میں لڑائی کو بھڑکانے کا الزام لگایا۔ یہ شہرمقامی طور پر ثالثی کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی کی بدولت کئی ہفتے سے نسبتاً پرسکون تھا۔
ایک مقامی کارکن نے روئٹرز کو بتایا کہ ہفتے کی صبح فوج کے ہیڈ کوارٹر کے قریب واقع شہر کے مرکزی بازار کے پاس وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ کارکنوں کے مطابق گذشتہ دو دنوں کی لڑائی میں تقریباً 30 افراد جان سے جا چکے ہیں۔
خرطوم میں جنگ اس وقت شروع ہوئی جب آر ایس ایف کو باقاعدہ فوج میں ضم کرنے کے منصوبے پر تنازعات کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ تنازعات کے شکار آمرانہ حکومت میں دہائیوں سے لڑائی کا شکار ملک میں جمہوری حکومت قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت سے بنایا گیا تھا۔