نو مئی کو فوجی تنصیبات اور سرکاری عمارتوں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ملزمان میں سے چند کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے عدالتوں نے بعض ملزمان کو ریمانڈ کے لیے فوج کے حوالے کر دیا ہے۔
ان ملزمان میں سے چھ ضلع مردان، تین تین دیر اور بنوں اور بعض ملاکنڈ میں بھی فوج کے حوالے کیے گئے ہیں۔
ان پر پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والے ملزمان کی مقدمات میں آرمی ایکٹ کے دفعات کی شمولیت کے خلاف درخواست پشاور ہائی کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لی ہے، جس کی اگلی پیشی 31 مئی کو ہونی ہے۔
فوجی عدالتوں کا قیام
پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت 2015 میں فوجی عدالتوں کی قیام کا فیصلہ کیا گیا جس میں دہشت گردوں کے ٹرائل کی منظوری بھی دی گئی تھی۔
فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ میں 21 ویں آئینی ترمیم کی گئی اور دو سال کے لیے منظور ہونے والی عدالتیں توسیع کے تحت 2019 تک کام کرتی رہیں۔
پاکستان فوج کے اس وقت کے ترجمان جنرل آصف غفور نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے بارے میں اے آر وائی نیوز کے اس وقت کے میزبان ارشد شریف کو بتایا تھا کہ ’2015 سے 2019 تک فوجی عدالتوں میں 717 مقدامت زیر سماعت رہے۔
’یہ تمام مقدمات وزارت داخلہ کے ذریعے فوجی عدالتوں کو بھیجے گئے تھے۔ 646 مقدمات کا فیصلہ ہوا جن میں 345 افراد کو سزائے موت سنائی گئی اور 56 کو پھانسی بھی دے دی گئی ہے۔ ان میں سے پانچ عدم ثبوتوں کے بنا پر رہا بھی کیے گئے تھے۔‘
فوجی عدالتوں کے قیام اور اس میں مقدمات چلانے پر اس وقت بین الاقوامی میڈیا سمیت بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی تھی اور ان اداروں کا موقف تھا کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا جاتا لیکن پاکستان فوج کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی۔
دنیا میں قانونی نوعیت کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم آئی سی جے (انٹرنشنل کمیشن آف جوریسٹس) نے 2019 میں پاکستان میں قائم 11 فوجی عدالتوں پر ایک رپورٹ میں کہا کہ ان عدالتوں کے فیصلوں میں ملزمان کو ان کے جائز انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق: ’ملٹری جسٹس کا نظام پاکستان کی اس سیاسی عزم کے بھی خلاف ہے جس میں انہوں نے ملزم کو زندگی کا حق، شفاف سماعت اور عدالتوں کے آزادانہ طرز کے انصاف کا وعدہ کیا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق فوجی عدالتوں نے 641 ملزمان کو سزائیں سنائیں جن میں ممکنہ طور پر بچے بھی شامل تھے اور مجرمان کا تناسب 99.2 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان مقدمات کی سماعت کے بارے میں عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کیسز کب اور کس وقت سنے گئے نیز ملزمان کو کن جرائم اور دفعات کے تحت سزائیں دی گئیں؟
اسی رپورٹ کے مطابق ان تمام فیصلوں میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان ملزمان کے خلاف کس قسم کے شواہد اکھٹے کیے گئے تھے جن کی بنا پر ان کو سزائیں دی گئی ہیں۔
’ان سزاؤں کی تفصیلات منظر عام پہ نہیں لائی گئیں اور نہ ہی ان عدالتوں میں ہونے والی کارروائی کی کوئی تفصیلات لوگوں تک پہنچائی گئیں ہیں۔‘
جب فوجی عدالتوں کی سزائیں معطل ہوئیں
فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً 200 ملزمان نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کیں اور اس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 2020 میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو معطل کرنے کا حکم دیا۔
اس سے پہلے پشاور ہائی کورٹ ہی نے2018 میں 74 فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان کی سزائیں معطل ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان کو فئیر ٹرائل کا حق نہ ملنے کو تسلیم کیا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو معطل کرتے ہوئے مقدمات کی سماعت دوبارہ شروع کی۔
دسمبر 2020 میں پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے پانچ مجرمان کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا تھا۔
آئی سی جے کے رپورٹ میں ثبوت کے طور پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے اس فیصلے کو معطل کیا جس میں انہوں نے 70 سے زائد ملزمان کو مخلتف نوعیت کی سزائیں سنائی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے ان فیصلوں میں تقریبا تمام ملزمان کے ایک جیسے اعتراف جرم والے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں، جب کہ ملزمان کو صرف ایک نجی وکیل مہیا کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ملزمان کو اپنے خاندان، وکیل یا کسی بھی باہر کے شخص سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔
’اس فیصلے میں یہ بھی واضح نہیں تھا کہ یہ ملزمان کب، کس وقت اور کس جرم میں پکڑے گئے تھے۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’ملزمان سے اعتراف جرم کے بیانات ان کی گرفتاری کے کئی برس بعد ریکارڈ کیے گئے تھے جبکہ سارے بیانات کا رسم الخط بھی ایک جیسا پایا گیا تھا۔‘
فوجی عدالتوں میں مقدمات کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوج سے تعلق رکھنے افراد جرم میں ملوث پائے جائیں تو انہیں آرمی ایکٹ کے تحت سزائی دی جاتی ہے۔
ابتدا میں یہ قانون صرف فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر لاگو ہوتا تھا لیکن بعدازاں اس میں کچھ دوسرے جرائم مثلاً فوجی تنصیبات پر حملہ، ملک کے خلاف بغاوت یا کسی فوجی رینک میں بغاوت کو بھی شامل کر دیا گیا۔
آرمی ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کو ’کورٹ مارشل‘ کہا جاتا ہے لیکن آرمی ایکٹ کے تحت بننے والے عدالتوں کی چار اقسام ہے۔
آرمی ایکٹ کے دفعہ 80 کے مطابق ایک کو جنرل کورٹ مارشل، دوسری کو ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل، تیسری کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اور چوتھی کو سمری کورٹ مارشل کہا جاتا ہے۔
ان تینوں عدالتوں کو قائم کرنے کی اپنی اتھارٹیز ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرمی ایکٹ کے مطابق جنرل کورٹ مارشل کی عدالت آرمی چیف یا کوئی بھی مجاز افسر بلا سکتا ہے، جبکہ ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل بھی آرمی سمیت کوئی بھی مجاز آرمی افسر بلا سکتا ہے۔
اسی طرح فیلڈ جنرل کورٹ مارشل وفاقی حکومت کے کسی مجاز افسر یا آرمی چیف کی حکم پر قائم کی جا سکتی ہے۔
فیلڈ جنرل کورٹ مارشل آرمی کے بریگیڈیئر عہدے سے کم کا افسر نہیں بلا سکتا۔
جنرل کورٹ مارشل کے تین سال تجربہ کے پانچ کمیشنڈ افسران حصہ بن سکتے ہیں جبکہ اس میں چار افسران کپتان رینک سے کم نہیں ہوں گے۔
اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل بھی تین تین افسران پر مشتمل ہوتی ہیں، جبکہ سمری کورٹ مارشل کسی بھی یونٹ کے کمانڈنگ افسر پر مشتمل ہو سکتی ہے۔
پشاور میں فوجداری مقدمات کی پریکٹس کرنے والے طارق افغان ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فوجی عدالتوں میں سماعت کے دوران پاکستان آرمی کے جج ایڈوکیٹ جنرل کے شعبے سے جج ایڈوکیٹ موجود ہوں گے جو عدالتی کارروائی کو دیکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں ملزم کو وکیل رکھنے کا اختیار ہوتا ہے اور اگر ملزم وکیل نہیں رکھ سکتا تو فوجی افسران کی جانب سے وکیل کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
طارق افغان نے بتایا: ’فوجی عدالتوں میں سزا دینے کے بعد ملزم کو 40 دن تک اپیل کا حق دیا جاتا ہے اور وہ آرمی چیف کو سزا کے خلاف اپیل دائر کر سکتا ہے اور اگر سزا یافتہ ملزم کو لگے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے تو وہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی اپیل کا حق رکھتا ہے۔‘
آرمی پبلک سکول کے بعد بننے والے فوجی عدالتوں کے حوالے سے طارق افغان نے بتایا کہ وہ عدالتیں خصوصی عدالتیں تھیں اور خاص کر دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے بنائی گئی تھیں لیکن اب جو عدالتوں کی بات ہو رہی ہے یہ عام فوجی عدالتیں ہیں جہاں نو مئی کے پر تشدد مظاہروں میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔
طارق افغان نے بتایا کہ عمران خان کے چار سالہ دور حکومت میں 20 سولین پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تھے، جن میں ایک انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک بھی شامل ہیں، جن پر حساس معلومات غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنے کا الزام تھا۔