پاکستان میں عمران رضا کا نام اور چہرہ شاید زیادہ شناسا نہ ہو لیکن ان کے کام سے ہر ایک واقف ہے۔ راحت فتح علی خان کا گایا ہوا ’ضروری تھا‘ کی البم بیک ٹو لوؤ ہو یا عاطف اسلم کا ’ہونا تھا پیار‘ ان کے بول عمران رضا ہی نے لکھے تھے۔
پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نشر ہونے والے دو نغمے، ’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے‘ اور ’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘ کسے یاد نہیں ہیں، یہ بھی عمران رضا کی ہی تحریر تھے۔
پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ایک بڑا انٹرٹینمنٹ چینل’گرین انٹرٹینمنٹ‘ شروع کیا جا رہا ہے جس کا باضابطہ افتتاح رواں برس جون میں کیا جا رہا ہے۔
گرین انٹرٹینمنٹ چینل کے سربراہ عمران رضا ہیں اور اس چینل کا بنیادی خیال ان ہی کا پیش کردہ ہے۔
گرین چینل کے سی ای او عمران رضا کا کہنا ہے کہ گرین انٹرٹینمنٹ کا افتتاح جون کے دوسرے ہفتے میں متوقع ہے جس میں اچھوتے موضوعات پر مشتمل 20 سے زیادہ نئے ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں۔
جب پاکستان میں گرین انٹرٹینمنٹ چینل پر پیش کیے جانے والے ڈراموں کی تشہیر شروع ہوئی تو پاکستانی ناظرین کو ایک بہت مختلف اور روایت سے ہٹ کو، اور کسی ہٹ تک اچھوتے ڈراموں کی جھلک دیکھنے کو ملی۔
اپنے حالیہ اور مختصر ترین دورہ اسلام آباد میں، گرین چینل کے دفتر میں کسی طرح عمران رضا کو قائل کیا کہ وہ اس چینل اور اپنے بارے میں بتائیں، جب وہ قائل ہوگئے تو پہلا سوال یہ ہی کیا کہ ان کا نام اور چہرہ عوام زیادہ نہیں پہچانتے لیکن ان کے لکھے نغمے ہر ایک کو یاد ہیں تو وہ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟
عمران رضا کا کہنا تھا کہ ’آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد قوم کا مورال بلند کرنے کی شدید ضرورت تھی، یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ یہ کیسا دشمن تھا جو بنیادی اخلاقی اقدار کو بھی چھوڑ گیا کہ جنگ میں بھی بچوں پر وار نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا الحمداللہ اثر ہوا اور قوم کا مورال بلند ہوا۔‘
عمران رضا کا کہنا تھا کہ وہ نغمہ سکول کی اسمبلی میں روز پڑھا جاتا تھا، پھر انہوں احساس ہوا کہ کئی ماہ گزر گئے ہیں اور بچہ ہر دن کی شروعات غصے سے کرتا ہے تو یہ غصہ اس کے لاشعور میں رہ نا جائے کیونکہ اصل جنگ تو جہالت کے خلاف ہے، اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی بچوں کے پاس بدلہ لینے کے بہتر طریقے موجود ہوں، اس لیے وہ خوش ہیں کہ وہ نغمے کام کر گئے۔
فوج پھر نغمے لکھنا اور اب ایک چینل کے سربراہ، اس اچھوتے سفر پر ان کا کہنا تھا کہ ’الفاظ میں بہت جان ہوتی ہے، فوج میں اچھا وقت گزرا پھر آئی ایس پی آر میں رہتے ہوئے سوچا کہ اس کام کو قومی سطح پر بھی کیا جا سکتا ہے، اسے خیال سے عمل کی جانب آیا اور اس طرح اپنے کیرئیر کو تبدیل کر لیا۔‘
اپنی شاعری کے بارے میں عمران رضا کا کہنا تھا کہ وہ بچپن ہی سے شاعری کر رہے ہیں۔
’ فوج میں رہتے ہوئے بھی شاعری کی کیونکہ انسان کی صلاحیت اس کے پیشے سے بڑی ہوتی ہے، ایک وقت میں بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں، لکھنے کا شوق تھا، تو جب آئی ایس پر آر میں آیا تو دونوں کام ایک ساتھ کرنے کا موقع ملا۔‘
فوج کو خیرباد کہنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام اس قوم کی خدمت ہے۔
’آئی ایس پی آر میں رہتے ہوئے اندازہ ہوا کہ بیانیے میں بہت طاقت ہوتی ہے، وہ انسان کو تبدیل کر سکتا ہے، تو اس سے بہتر کیا ہو گا کہ کسی کا نقطہ نظر بہتر کر سکیں، اس کی زندگی بہتر ہوسکے۔ ابلاغ ایک مقدس پیشہ ہے، اسے مقدس ہی رہنا چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے فلم ’بول‘ شعیب منصور کے ساتھ کی تھی، جس میں عاطف اسلم کا گایا ہوا گانا ’ہونا تھا پیار‘، بہت سے ڈراموں پس پردہ گانے لکھے، صدقے تمہارے، سمی، اڈاری سمیت کئی ایسے ڈرامے تھے اور پھر راحت فتح علی خان کا میوزک البم ’بیک ٹو لؤ‘ کیا۔
گرین انٹرٹینمنٹ چینل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی انتظامیہ کو سراہنا چاہیے کہ انہوں نے پاکستان میں جو خالی جگہ تھی اسے دیکھا اور سمجھا اور اسے پُر کرنے کے لیے ایک ویژن لے کر چلے۔
’ہم پی ٹی وی کے زمانے کے لوگ ہیں، ہمارا ٹی وی ایک استاد ہوتا تھا، ٹی وی کو استاد ہونا چاہیے، جس سے لوگ سیکھیں، سچ اور جھوٹ کی تمیز ہو، بس ان خیالات کی بنیاد پر گرین کی ابتدا ہوئی ہے۔‘
پاکستانی ڈرامے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایک مُتَنَوِّع ملک ہے، یہاں گھر میں بھائی کی کہانی ہے، بہن کی کہانی ہے۔ پاکستان میں اوریجنل ڈرامے کے لیے سلطانہ صدیقی کی کاوشیں بےشمار ہیں، جیو اور اے آر وائی نے اپنے اپنے انداز میں کافی کام کیا، لیکن 22 سال ہوگئے ہیں سیٹلائٹ ٹی وی کو پاکستان میں آئے ہوئے۔
’اب موضوعات کہیں اٹک گئے، کہانی گھر کے اندر ہی اٹک گئی، یہ ایک وسیع خلا تھا کیونکہ کہانی تو بنتی ہی گھر سے نکل کر ہے، خواب کی کہانیاں بتانے کی ضرورت تھی، معاشرے میں رہن سہن پر بات کرنا تھی، تو گرین ان تمام موضوعات پر بات کرتا ہے جو ہمارے خاندانوں میں دیکھا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کہانی گاؤں یا شہر کی نہیں ہوتی، گاؤں یا شہر میں رہنے والوں کی خواب کا پس منظر ضرور مختلف ہوتا ہے، مگر خواب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے، گرین کی کوشش ہے کہ وہ آفاقی موضوعات پر کام کرے، گرین کے موضوعات انسانی ہیں، تو جہاں انساں ہوں گے وہ اس کہانی کو اپنی سمجھ سکتے ہیں۔‘
گرین کی باقاعدہ نشریات شروع کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تین ہفتے سے ٹیسٹ ٹرانسمیشن جاری ہے، جون کے پہلے ہفتے تک امید ہے کہ ڈسٹری بیوشن کے کام ہوجائیں گے تو فوری طور پر ڈرامے نشر کرنا شروع کر دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے موجودہ حالات میں کسی چینل کو منافع بخش کیسے بنایا جاسکتا ہے، جب کہ اتنے زیادہ چینل موجود ہیں، اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اشتہارات کا دارومدار دیکھنے والوں کی تعداد پر ہوتا ہے، جب آپ خاندان کو اپنے مواد سے جوڑ دیتے ہیں تو پھر پیسے کمانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہتا۔‘
پاکستان میں ڈرامے اور فلموں میں ریاست کی جانب سے مداخلت پر ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست عام کہانیوں میں کبھی مداخلت نہیں کرتی، باپ کی کہانی یا ماں کی کہانی سے مسئلہ نہیں ہوتا، مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب معاشرے میں کوئی غلط پیغام پہنچایا جائے یا پھر عالمی سطح پر ملک کو بدنام کر نے لیے کچھ کیا جائے۔‘
گرین چینل پر نئے فنکاروں کو کم موقع دینے اور پہلے سے مشہور فنکاروں کو کاسٹ کرنے کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئے عمران رضا کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کوئی تربیتی ادارہ تو ہے ہی نہیں، فلم یا ٹی وی کو پڑھایا نہیں جاتا، تھیٹر اتنا بڑا ہے نہیں، لیکن شروع میں بہت سے بچوں کو گرین کے اندر ایک چھوٹی اکیڈمی بنا کر تربیت بھی دی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کالج گیٹ‘ میں نئے لوگوں کو بھرپور موقع ملا ہے، ہنی مون ڈرامے کے مرکزی کردار نئے ہیں، لیکن ایک چینل کو ایک سال کے لیے جتنا مواد چاہیے اتنے لوگ ہیں نہیں، اس لیے ایک متوازن کا کام کیا ہے کہ نام ور اداکار بھی ہیں اور نئے بھی۔
عمران رضا نے انکشاف کیا کہ ’ایک مرتبہ چینل شروع ہوجائے تو اس کے بعد گرین فلمز کی بھی باری آئے گی، بہت ہی اوریجنل، پاکستانی اپنے کلچر کی مناسبت سے فلم بنائیں گے، تو ایک سال کے بعد پہلی فلم لگ چکی ہو گی۔‘
آخر میں عمران رضا نے بتایا کہ ان کا جو بھی نیا ڈراما ہوتا ہے تو وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ رابطہ کریں، گرین ٹی وی کے ذریعے بھی یہ ہو گا، اندرونی طور پر ایک اکیڈمی بھی قائم کی ہے اور گرین چینل میں بہت سے نئے لوگوں کو کام ملے گا۔‘