امریکہ میں حزب اختلاف کی رپبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنما کیون میک کارتھی اور صدر جوبائیڈن نے ہفتے کو ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت حکومت کی قرض لینے کی حد میں اضافہ ہو جائے گا۔
اس طرح امریکہ دیوالیہ ہونے کے اس خطرے سے نکل آئے گا جس کے حوالے سے ’ایکس ڈیٹ‘ میں چند روز باقی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قرضہ لینے کے حکومتی اختیار میں اضافے پر معاہدے پر بدھ کو امریکی کانگریس میں ووٹنگ ہو گی۔
یہ ووٹنگ اس ’ایکس ڈیٹ‘ سے محض پانچ روز قبل ہو گی جب امریکی وزارت خزانہ کے مطابق حکومت اپنے اخراجات کے لیے ادائیگی کرنے کے قابل نہیں رہے گی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی۔
رپبلکن اکثریت والے ایوان نمائندگان کے سپیکر میک کارتھی کا کہنا تھا کہ ’کئی ہفتے کے مذاکرات کے بعد ہم اصولی طور پر ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔‘
میک کارتھی جنہوں نے ہفتے کو بائیڈن کے ساتھ معاہدے کرنے کے بارے میں بات کی، نے کہا کہ وہ اتوار کو صدر سے دوبارہ مشاورت کریں گے اور بل کے حتمی مسودے کی نگرانی کریں گے۔ ایوان ’پھر بدھ کو اس پر ووٹنگ کرے گا۔‘
بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاہدہ ’امریکی عوام کے لیے اچھی خبر ہے کیوں کہ جو اس صورت حال کو روکتا ہے جو تباہ کن ڈیفالٹ ہو سکتا تھی اور اس سے معاشی بحران، پینشن اکاؤنٹس تباہ اور لاکھوں ملازمتیں ختم ہو سکتی تھیں۔ ‘
اس پیش رفت کے باوجود میک کارتھی نے خبردار کیا کہ کانگریس کو معاہدے کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے ’ابھی بھی بہت کام کرنا ہے۔ ‘
قرضہ لینے کی حد میں اضافہ ایک طریقہ کار جو زیادہ تر کئی سال کسی سے ڈرامے کے بغیر ہوتا آیا ہے۔ یہ طریقہ حکومت کو قرضہ لینے کا عمل جاری رکھنے اورمسئلہ حل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
اس سال رپبلکن ارکان نے قرض کی حد کو بڑھانے کے بدلے میں بڑے پیمانے پر اخراجات میں کمی کا مطالبہ کیا۔ ان اخراجات میں زیادہ تر غریب افراد پر خرچ کی جانے والی رقم ہے۔
رپبلکنز کا کہنا ہے کہ ملک کے 31 کھرب ڈالر کے بڑے قرضے سے نمٹنے کے لیے کڑوی گولی نگلنے کا وقت آگیا ہے۔
بائیڈن کا استدلال ہے کہ وہ قرضے کی حد کو بڑھانے کی شرط کے طور پر اخراجات میں کمی کے معاملات پر بات چیت نہیں کریں گے۔ انہوں نے ریپبلکنز پر معیشت کو یرغمال بنانے کا الزام لگاتے لگایا۔ دونوں فریق مؤقف اب کسی حد تک تبدیل ہوا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق معاہدے کے خاکے میں دو سال کے لیے قرضے کی حد کو آزاد کرنا بھی شامل ہے۔
یعنی 2024 میں جب ملک میں صدارتی انتخاب کی تیاری زوروں پر ہو گی تو اس ضمن میں مذاکرات کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
رپورٹس کے مطابق جو بڑی کٹوتیاں ریپبلکنز چاہتے تھے ان کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن بجٹ مؤثر انداز میں منجمد کر دیا جائے گا۔ بے روزگاری کی صورت میں ملنے والے الاؤنس اور دیگر وفاقی امداد تک رسائی کے لیے بھی سخت قوانین ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائیڈن نے کہا کہ ’معاہدہ ایک سمجھوتے کی طرح ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر کسی کو وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘
وزیر خزانہ جینیٹ ییلن نے ابتدائی طور پر یکم جون کے قریب ممکنہ ڈیفالٹ کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ اگر کانگریس قرض لینے کی حد کو بڑھانے میں ناکام رہی، لیکن جمعے کو انہوں نے ڈیڈ لائن کو پانچ جون تک بڑھا کر قانون سازوں کو مزید کچھ وقت دے دیا۔
اس کے باوجود قانون سازی کو اب بھی انتہائی غیر متنازعہ بلوں کے لیے عام ٹائم ٹیبل کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کانگریس کی منظوری لینی ہو گی۔
ایوان کے قوانین کے تحت ایوان نمائندگان کو بل پیش کرنے کے بعد ووٹنگ کے لیے 72 گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے۔ اگر بل ایوان سے منظور ہو جائے تو اسے سینیٹ میں بھیجا جاتا ہے جہاں اس وقت ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے۔
ڈیفالٹ کی صورت میں حکومت جون کے وسط تک قرضوں کی ادائیگیوں میں ناکام نہیں ہو گی لیکن اس دوران اسے سوشل سکیورٹی اور وفاقی تنخواہوں کی مد میں 25 ارب ڈالر کے اخراجات روکنے ہوں گے۔
میک کارتھی کو اپنے لیے ایوان میں معاہدے کے حق میں 222 رپبلکنز کی کم اکثریت کی امید ہے لیکن اس معاہدے کو انتہائی دائیں بازو کے 35 قانون سازوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جنہوں نے ان سے کہا کہ وہ اخراجات میں بہت زیادہ کٹوتیوں پر سمجھوتہ کرنے کے خلاف مؤقف پر قائم رہے گے۔
اس کا مطلب ہے کہ ڈیموکریٹس کی ایک بڑی تعداد کو رپبلکنز کی کم تعداد کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر پائیں جو بڑے بلوں پر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔
دوسری جانب ڈیموکریٹس کو پارٹی کے اندر بائیں بازو کے ارکان کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو اخراجات میں کسی قسم کی کمی پر اعتراض کرتے ہیں۔