شمالی کوریا کی سیٹلائٹ لانچ کی تیاری، جاپان کے میزائل ڈیفنس الرٹ

شمالی کوریا نے جاپان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں ایک سیٹلائٹ لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم جاپان نے اسے تجربے کی آڑ میں میزائل لانچ کرنا قرار دیا ہے۔

شمالی کوریا نے پیر کو ہمسایہ ملک جاپان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں ایک مصنوعی سیارہ (سیٹلائٹ) مدار میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم ٹوکیو کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ سیٹلائٹ کی آڑ میں میزائل لانچ کرنے جا رہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی)کے مطابق یہ مصنوعی سیارہ شمالی کوریا کے پہلے فوجی جاسوسی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجنے کی کوشش ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب جاپانی کوسٹ گارڈز نے کہا ہے کہ اسے شمالی کوریا کے آبی گزر گاہوں کے محکمے سے موصول ہونے والے نوٹس میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی سیارہ 31 مئی اور 11 جون کے درمیان کسی دن لانچ کیا جائے گا اور سیارے کو مدار میں بھیجنے کے عمل کے دوران بحیرہ زرد، مشرقی بحیرہ چین اور فلپائن کے لوزون جزیرے کے مشرق میں واقع سمندر کے حصے متاثر ہوسکتے ہیں۔

جاپانی کوسٹ گارڈز نے ان تاریخوں کے دوران اس علاقے میں بحری جہازوں کے لیے حفاظتی انتباہ جاری کیا ہے کیوں کہ مصنوعی سیارے کا ملبہ گرنے کا خطرہ موجود ہے۔

جاپان کا کوسٹ گارڈ مشرقی ایشیا میں بحری تحفظ سے متعلق معلومات کو مربوط اور تقسیم کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا کا نوٹس اسے موصول ہوا۔

خلا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے لیے شمالی کوریا کو طویل فاصلے تک مار کرنے والی میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہو گا، جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت پابندی عائد ہے۔

سیٹلائٹ یا میزائل تجربہ؟

شمالی کوریا کے زمین کا مشاہدہ کرنے والے مصنوعی سیاروں کو مدار میں بھیجنے کے عمل کو ماضی میں میزائل تجربے کے طور پر دیکھا گیا۔

جاپان کے چیف کیبنٹ سکریٹری ہیروکازو متسونو نے کہا کہ سیلائٹ سے لانچ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی اور یہ ’جاپان، خطے اور عالمی برادری کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کا کہنا تھا: ’شمالی کوریا کا سیٹلائٹ کی آڑ میں بیلسٹک میزائل لانچ کرنا ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے سنگین اشتعال انگیزی ہے۔‘

متسونو نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ سیٹلائٹ جاپان کے جنوب مغربی جزائر بشمول اوکیناوا میں داخل ہو جائے یا اس کے اوپر سے گزر جائے جہاں امریکہ کے بڑے فوجی اڈے اور ہزاروں فوجی موجود ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیر دفاع یاسوکازو ہمادا نے جاپان کی سیلف ڈیفنس فورس کو حکم دیا ہے کہ اگر مصنوعی سیارہ یا اس کا ملبہ جاپانی علاقے میں داخل ہو تو اسے مار گرایا جائے۔

جاپان اس سال کے شروع میں شمالی کوریا کی جانب سے لانچ گیے گئے میزائلوں کے ملبے کے لیے پہلے سے ہی تیار ہے اور اس نے میزائل دفاعی نظام جیسے پی اے سی تھری اور جنوب مغربی جاپان میں جہاز سے فضا میں مار کرنے والے نظام لگا رکھے ہیں۔

جاپان کے وزیراعظم فومیو کشیدا نے کہا کہ انہوں نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیٹلائٹ لانچ سے متعلق معلومات کو اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے اور لوگوں کو اس کے بارے میں مطلع کرنے کی پوری کوشش کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قبل ازیں شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ رہنما کم جونگ اُن نے ملک کے ایرو اسپیس سینٹر میں تیار شدہ فوجی جاسوس سیٹلائٹ کا معائنہ کیا اور سیٹلائٹ کے لانچ کے منصوبے کی منظوری دی۔ پیر کے لانچ نوٹس میں سیٹلائٹ کی قسم کی وضاحت نہیں کی گئی۔

گذشتہ ہفتے شمالی کوریا کے حریف جنوبی کوریا نے اپنا پہلا تجارتی درجے کا سیٹلائٹ خلا میں چھوڑا تھا، جو ممکنہ طور پر اسے ٹیکنالوجی اور مہارت فراہم کرے گا تاکہ اس سال کے آخر میں اپنے پہلے فوجی جاسوس سیٹلائٹ کو مدار میں لانچ کر سکے اور زیادہ طاقتور میزائل بنائے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کم جونگ ان کی خواہش ہوگی کہ ان کا ملک جنوبی کوریا سے پہلے ایک جاسوس سیٹلائٹ لانچ کرے۔

شمالی کوریا نے 2012 اور 2016 میں زمین کا مشاہدہ کرنے والے سیٹلائٹس کو مدار میں چھوڑا تھا۔

پیانگ یانگ اپنے میزائل فائر کرنے کے بارے میں پڑوسی ممالک کو پیشگی مطلع نہیں کرتا ہے، لیکن ماضی میں سیٹلائٹ لانچ کرنے سے پہلے نوٹس جاری کر چکا ہے۔

ایک طرف جہاں شمالی کوریا نے سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہیں اس کے سیٹلائٹ کی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

غیر ملکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے کے مصنوعی سیاروں نے کبھی بھی شمالی کوریا کو تصویریں منتقل نہیں کیں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری میڈیا میں دکھائے جانے والا نیا مصنوعی سیارہ بہت چھوٹا دکھائی دیتا ہے اور ہائی ریزولوشن تصاویر کو سپورٹ کرنے کے لیے بہتر انداز میں نہیں بنایا گیا۔

جاسوس سیٹلائٹ ہائی ٹیک ہتھیاروں کے نظام کی ایک صف میں شامل ہیں جسے کم جونگ ان نے عوامی طور پر تیار کرنے کا عزم کیا ہے۔ ان کی خواہش کی فہرست میں دیگر ہتھیاروں کے نظام میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم)، جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزیں، ہائپر سونک میزائل اور ملٹی وار ہیڈ میزائل شامل ہیں۔

شمالی کا سیٹلائٹ لانچ کرنے کا منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے۔

2022 کے آغاز سے شمالی کوریا نے 100 سے زیادہ میزائلوں کا تجربہ کیا ہے، جن میں سے کچھ جوہری صلاحیت کے حامل ہتھیار ہیں جو امریکی سرزمین، جنوبی کوریا اور جاپان میں اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس کے ان تجربات کا مقصد امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان توسیع شدہ فوجی مشقوں کے حوالے سے وارننگ جاری کرنا ہے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا مقصد اپنے ہتھیاروں کے پروگرام کو جدید بنانا اور مستقبل میں اپنے حریفوں سے زیادہ مراعات حاصل کرنا ہے۔

گذشتہ ہفتے جنوبی کورین اور امریکی افواج نے اپنے اتحاد کے قیام کے 70 سال مکمل ہونے پر پانچ راؤنڈز پر مشتمل مشقوں کے پہلے حصے کے طور پر شمالی کوریا کے ساتھ سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر لائیو مشقیں کیں۔

شمالی کوریا نے اس حوالے سے خبردار کیا تھا کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کو ان کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا