پاکستان کے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ’نہ تو آئی ایم ایف اور نہ ہی کسی دوسرے ملک نے ہماری جوہری صلاحیت کے حوالے سے کوئی شرط عائد کی اور نہ ہی پاکستان سے کوئی مطالبہ کیا ہے۔‘
انہوں نے آج ایک پریس ریلیز میں کہا کہ 16 مارچ، 2023 کو سینیٹ کے فلور پر آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجوہات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں دیے گئے ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
پریس ریلیز کے مطابق پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک سینیٹر کے مخصوص سوال کے جواب میں نے انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان کو خودمختار ملک ہونے کے ناطے اپنا جوہری پروگرام تیار کرنے کا پورا حق حاصل ہے کیونکہ کسی بیرونی ڈکٹیشن کے بغیر یہ ہمارے قومی مفادات کے مطابق ہے، جس کو کسی بھی ذریعے یا طریقے سے کسی بھی طرح سے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر خالصتاً تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہے۔
’ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اسے جلد از جلدحتمی شکل دی جا سکے۔‘
اس سے قبل آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایسٹر پریز روئز نے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد سے مذاکرات معاشی مسائل کے حل اور مالی استحکام پر ہو رہے ہیں اور ان کے ملکی جوہری پروگرام سے تعلق جوڑنے کی قیاس آرائیوں میں کوئی سچائی یا حقیقت نہیں۔
روئز کی یہ وضاحت ان قیاس آرائیوں کے بعد آئی جن میں کہا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرض کی بحالی کے لیے نویں جائزہ مذاکرات میں نیوکلیئر پروگرام پر بھی بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نہ تو حالیہ مذاکرات اور نہ ہی ماضی میں ہونے والی بات چیت میں جوہری پروگرام کبھی بات چیت کا حصہ رہا۔
روئز نے بیان میں مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے پاکستان سے مذاکرات صرف معاشی پالیسی پر ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد مالی استحکام ہے۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں پاکستان کے معاشی مسائل اور ادائیگوں میں توازن سے جڑے معاملات پر بات چیت ہو رہی ہے، جو کہ عالمی مالیاتی ادارے کے مینڈیٹ کا حصہ ہے۔
گذشتہ ہفتے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمان میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے اعتراف کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات غیر معمولی طور پر طویل ہیں۔
تاہم انہوں نے اس وقت واضح کیا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے سٹاف لیول معاہدہ طے ہونے کے بعد متعلقہ تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں گی۔
گذشتہ ماہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کے دورے کے بعد بھی پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے مستقبل سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا تھا، جس کی تردید خود وزیراعظم شہباز شریف کو کرنی پڑی۔
وزیراعظم نے 16 مارچ کو ایک بیان میں کہا تھا: ’پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے سوشل اور پرنٹ میڈیا میں گردش کرنے والے حالیہ تمام بیانات، پریس ریلیزیں، سوالات اور مختلف دعوے، جن میں پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ڈی جی آئی اے ای اے رافیل ماریانو گروسی کے معمول کے دورے کو منفی رنگ دیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے بیان میں کہا کہ ’پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے اور ریاست پاکستان ہر طرح سے اس پروگرام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔
’یہ پروگرام مکمل طور پر محفوظ، فول پروف اور کسی بھی دباؤ سے ماورا اور آزاد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ پروگرام اس مقصد کو ہر طرح سے پورا کرتا ہے جس کے لیے یہ صلاحیت تیار کی گئی تھی۔‘
پاکستان کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس کے حل کے لیے حکومت مسلسل کوشش کر رہی ہے، جس میں سے ایک آئی ایم ایف قرض کی آئندہ قسط کے حصول کے لیے بات چیت شامل ہے۔
فروری میں آئی ایم ایف کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جس کے دوران اسلام آباد میں 10 روز تک مذاکرات ہوئے تھے لیکن قرض کی بحالی پر کوئی اتفاق نہیں ہوا تھا۔
اس بات چیت کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے معاشی اصلاحات کے لیے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری بھی پارلیمان سے حاصل کی لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود تاحال آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی آئندہ قسط کے اجرا کی منظوری نہیں ہو سکی۔
معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے پاکستان دوست ممالک سے بھی رابطے میں ہے تاکہ وہاں سے نرم شرائط پر قرض یا امداد حاصل کر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو ڈھارس دے سکے۔
اسلام آباد میں براہ راست مذاکرات کے بعد بھی پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفود کے درمیان ورچوئل بات چیت کے متعدد دور ہو چکے ہیں۔