پاکستان میں حکومت کی آج کل سرتوڑ کوشش ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور اس کے مختلف گروپس بن جائیں، لیکن ایک دلچسپ گروپ کے بارے میں علم لاہور کے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ پہنچ کر ہوا۔
میں اس مقام کو نوجوانوں کا گڑھ سمجھتا تھا لیکن اس کے صدر دروازے کی چھت پر دونوں جانب بنی حفاظتی چوکیوں میں سے ایک کے باہر بینر پر یہ تحریر پڑھ کر مسکرا دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے پرچم والے اس چھوٹے سے بینر پر لکھا تھا: ’عدل و انصاف قائم کرو، نماز قائم کرو، از پی ٹی آئی سفید داڑھی گروپ۔‘
ماضی میں ترین گروپ، فواد گروپ اور ناجانے کون کون سے گروپوں کے بارے میں تو سنا تھا، اس سفید داڑھی والے گروپ کے بارے میں یہاں جان کر معلوم ہوا۔
اس بارے میں زیادہ جاننے کا موقع نہیں ملا کیونکہ اسلام آباد سے انٹرویو کے لیے بھاگ بھاگ کر طے شدہ وقت شام سات بجے پہنچ پائے تو جلدی بس سیٹ اپ لگانے کی تھی۔
عمران خان کے آبائی گھر کو دیکھ کر کابل میں انتہائی سکیورٹی والے کسی مکان کا خیال ذہن میں گھوم گیا۔ ریت کی بوریاں اور بیریرز سے معلوم پڑتا تھا کہ یہاں سکیورٹی کو ہلکا نہیں لیا جاتا۔
کینال روڈ سے زمان پارک کی جانب مڑے تو پہلی چوکی سے قبل دو چار نوجوانوں کو اپنے اپنے یوٹیوب چینلز کے مائیک اٹھائے اپنی آڈینس کو عمران خان کے بارے میں تازہ معلومات سے آگاہ کرنے کی کوشش میں مصروف پایا۔
چوکی پر مامور پنجاب پولیس کے سپاہی نے اتا پتہ پوچھا تو بتایا کہ انٹرویو کے لیے آئے ہیں، کہنے لگے انہیں اس کی کوئی اطلاع نہیں لہذا اپنے کانٹیکٹ سے رابطہ کریں تاکہ انہیں بتایا جا سکے۔
پھر اسے شاید خود ہی ترس آ گیا کہنے لگے رہنے دیں میں خود ہی فون کر دیتا ہوں۔ ان کی تسلی کے بعد گلی میں آگے جانے دیا گیا۔
پہلے گیٹ کے باہر پنجاب پولیس کے ایک اہلکار نے کیمرے اور تمام بیگ کھلوا کر چیک کیے۔
پنجاب پولیس کے اہلکار گیٹ کی ایک جانب احاطے کے اندر سے چوکی میں بیٹھے ہوئے پائے، یعنی انہیں احاطے کے اندر آنے کی بھی اجازت تھی۔
اندر عمران خان کی اپنی سکیورٹی نے دوبارہ چیکنگ کا عمل دہرایا۔ انہوں نے ایک قدم آگے تمام برقی آلات آن کروا کر بھی اپنی تسلی کی۔
مکان کے فرنٹ لان میں سیاہ کوٹوں کی یعنی وکلا کی بھرمار تھی۔ کمپاؤنڈ کوئی سو کے قریب وکلا سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا۔
ایک جانب ایک میز پر ان مہمان وکلا سے لیے گئے تمام موبائل فونز کا انبار لگا تھا۔
ایک جانب قناعتیں سجی تھیں، مکان کے دوسرے حصار میں داخل ہونے کے لیے واک تھرو گیٹس لگے تھے اور ایک کونے میں بار بی کیو کے رومانوی دھویں اٹھ رہے تھے، یعنی ایسا لگا جیسے کوئی بار بی کیو پارٹی آن ہو۔
وہیں ایک نوجوان یوٹیوبر کو ایک خاتون وکیل کا انٹرویو اپنے موبائل کے ذریعے ریکارڈ کرتے دیکھا۔
تھوڑا قریب جا کر سننے کی کوشش کی کہ شاید اس انٹرویو سے معلوم ہو سکے کہ کالے کوٹ والے یہاں کیا کر رہے تھے لیکن انٹرویو کرنے والے کا سوال سن کر اپنی 33 سالہ صحافتی زندگی پر افسوس ہوا کہ اس قسم کے سوال میرے ذہن میں کبھی کیوں نہیں آئے؟
لڑکا پوچھ رہا تھا کہ ’اے خاتون وکیل کیا آپ نے کبھی کسی لیڈر کو اس طرح اپنے ورکرز میں بیٹھا دیکھا؟‘ واقعی اب معلوم ہوا کہ یوٹیوب کیوں نوجوانوں میں اتنا مقبول ہے۔ اس نے ہر کسی کو ’صحافی‘ جو بنا دیا ہے۔
فرنٹ لان نہ صرف سیاسی اجتماع گاہ بنا ہوا تھا بلکہ عمران خان کے زیر استعمال سیاہ بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی کھڑی تھی اور چند مکینک وہیں اس کا اگلا پہیہ کھولے اس کی مرمت میں مصروف تھے۔
شاید سکیورٹی کا تقاضہ تھا کہ ورک شاپ بھی زمان پارک میں ہی کھولی جائے۔ عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے تین سیاہ ویگوز البتہ گھر سے باہر گلی میں قطار میں کھڑی تھیں۔
وہیں سفید لباس میں عمران خان کی کٹر کارکن نادیہ خٹک سے ملاقات ہوئی۔ دیکھ کر مسکرائیں اور قریب آکر حال احوال کرنے لگیں۔
میں نے پوچھا لاہور میں کب سے ہیں تو کہا جب سے خان صاحب یہاں آئے ہوئے ہیں انہوں نے بھی یہیں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
یہ وہی مشہور نادیہ ہیں جنہیں اکثر سوشل میڈیا پر عمران خان کے جلسے جلوسوں میں آگے آگے پایا جاتا ہے اور اکثر لوگ پوچھتے ہیں ’وہ روتی کیوں رہتی ہیں؟‘ شاید کبھی خوشی اور کبھی غم کے ان آنسووں پر کس کا کنٹرول رہتا ہے۔
دوسرے حصار میں داخل ہونے کے لیے جسمانی تلاشی ہوئی اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے سیاہ یونیفارم میں ملبوس ایک اہلکار نے جیب میں موبائل ٹٹولتے ہوئے پوچھا: ’ایک ہی ہے نا؟‘ کہا جی بس ایک ہی سنبھال سکتا ہوں۔
تحریک انصاف کے ایک منتظم اعلیٰ نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا آپ میں سے ہارون رشید کون ہے؟
میں نے کہا کہ ’یہ خادم ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ وہ ناموں کی مشابہت کی وجہ سے سینیئر تجزیہ کار ہارون الرشید سمجھ بیٹھے تھے اور اس کی تصدیق کے لیے جب انہوں نے انٹرویو کے بارے میں فون پر پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ لہٰذا انہوں نے خان صاحب کو بتا دیا کہ آج کوئی انٹرویو نہیں۔میں نے کہا اس ہارون الرشید کا فیض میں سوشل میڈیا پر بھی ان کے ناقدین سے اکٹھا کرتا رہتا ہوں۔
دوسرے احاطے میں داخل ہوتے ہی بغل میں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا۔
کوئی دس بارہ فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا کمرہ دراصل تحریک انصاف کے رہنما کے انٹرویوز کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے۔
آدھی دیواریں گہرے نیلے اور آدھے کو سفید رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔
جدید لائٹس کا بھی اچھا انتظام تھا لیکن ون ٹو ون انٹرویو کے لیے اس سے تنگ اور نامناسب جگہ شاید ہی پہلے کبھی دیکھی ہو۔
پہلے تو شک ہوا کہ شاید کوئی کنٹینر لا کر رکھ دیا گیا ہے لیکن دیوار بجا کر دیکھا تو کنکریٹ کا بنا تھا۔ بس لڑ مر کر ہمارے ساتھی سہیل اختر نے کچھ ریکارڈ کر ہی لیا۔
ایک کونے میں پاکستان کا قومی اور تحریک انصاف کا پارٹی پرچم رکھے تھے اور ایک میز خالی پڑی تھی۔ دوسرے کونے میں بڑا ٹی وی دیوار پر نصب تھا۔
پی ٹی آئی کے آئی ٹی ڈائریکٹر نعمان افضل سے ملاقات ہوئی تو درخواست کی کہ یہ جگہ انٹرویو کے لیے مناسب ڈپتھ نہیں دیتی باہر کھلی فضا میں انتظام کر لیتے ہیں لیکن کوئی آدھ گھنٹے کی بحث کے باوجود ان کا اور ان کے ساتھی علی کی حمایت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔
ان کا اصرار تھا جو کرنا ہے یہیں کریں۔ ہاں خالی پس منظر میں لگی میز کے لیے انہوں نے انتہائی شفقت سے ایک عدد مارخور لا کر رکھ دیا۔
اسے دیکھ کر میں اور وہ دونوں مسکرائے تاہم مطلب پوچھنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید کوئی کوڈڈ پیغام ہو ہمیں معلوم نہیں۔
یہ کمرہ وہ مقام ہے جہاں سے آپ عمران خان کو تقریباً روزانہ سوشل میڈیا پر ’قوم سے خطاب‘ کرتے پاتے ہیں لیکن یہ انٹرویوز کے لیے مناسب جگہ ہرگز نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہمانوں سے چائے پانی کے نہ پوچھنے کی روایت بنی گالہ کی طرح یہاں بھی قائم تھی۔
پانی مانگا تو انتہائی محبت سے وہ سافٹ ڈرنگ کے دو کین لے آئے۔
پھر میزبانوں نے انٹرویو کے لیے بیس منٹ بیس منٹ کی رٹ بھی مسلسل لگا رکھی تھی۔ کہا بھئی بڑے عرصے بعد خان صاحب سے ملنا ہو رہا ہے تو چائے بسکٹ نہیں تو وقت تو ضرور دینا ہو گا۔
لیکن دونوں میڈیا اہلکار خان صاحب کی سوچ سے متاثر ’جارحانہ‘ رویے اپنائے رہے۔ ان کی ہلکی سی شکایت عمران خان سے بھی بعد از انٹرویو کی جس پر وہ مسکرا دیے۔
ہمارے بعد اسلام آباد سے آئے آسٹریلیا کے چند سفیروں نے ان سے ملنا تھا۔
20 منٹ پورے ہونے پر باہر سے پی ٹی آئی کے کسی شخص نے دروازے پر دو دستکیں دیں جس کے بعد عمران نے آخری سوال کا مطالبہ کر دیا۔
انٹرویو تو 22 منٹ میں ہی لپیٹ لیا لیکن بہت سے سوال ذہن میں رہ گئے۔
ماضی میں بھی تین چار مرتبہ عمران خان سے ملنے کے مواقع ملتے رہے، ہر مرتبہ انہیں زیادہ سنجیدہ اور اپنے موقف کے بارے میں واضح پایا۔
ان کا سب کچھ ان کے ووٹرز ہیں اور ان کے سینیئر ساتھی آتے جاتے رہیں انہیں امید ہے کہ ان کی عوامی حمایت ہی ان کی کشتی آئندہ انتخابات میں کنارے لگائے گی۔ کوئی کارنر کیے جانے کی ٹینشن دکھائی نہیں دی۔
ان سے ان کی ٹانگ کے بارے میں پوچھا تو کہا: ’اب ٹھیک ہے۔ سن رگ کا مسئلہ ہے لیکن بس ٹھیک ہے۔‘
اب شاید اس زخم کی وجہ سے عمران صاحب کپتان چپل نہیں پہنتے اور جوگرز میں زیادہ نظر آتے ہیں۔
پوچھا کہ بنی گالہ کیوں چھوڑ دیا تو بتایا کہ حکومت کے خاتمے کے بعد احتجاجی تحریک اور پھر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے ان کا لاہور رہنا ضروری تھا۔
انٹرویو کے بعد نعمان صاحب سے پوچھا کیا انٹرویو ان کے اعتبار سے ٹھیک رہا تو بولے ’ہاں سب ٹھیک تھا لیکن آپ خان صاحب کو اپنے سوال سے ہنسا نہیں سکے۔ ’ہر انٹرویو میں وہ کسی نہ کسی ایک سوال پر ہنستے ضرور ہیں۔‘
بس اپنا روہانسا سا منہ لے کر واپس چل پڑا کہ آخر ایسا کون سا سوال تھا جو نہیں پوچھ پایا۔
تقریباً اسی قسم کا ردعمل صدر ڈاکٹر عارف علوی کے انٹرویو کے بعد ان کے میڈیا انچارج افسر نے بھی دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’یار آپ نے تو سارے غلط سوال پوچھے۔‘