چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف میں کتنے بااختیار ہو سکتے ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی ان کی جماعت کے صدر ہیں اور نوٹیفیکیشن سیکریٹری جنرل اس عمر کی رہائی کے بعد جاری کر دیا جائے گا۔ہے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور مسلم لیگ ق کے سابق رہنما چوہدری پرویز الہی 21 فروری 2023 کو مشترکہ نیوز کانفرنس میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں (پی ٹی آئی یو ٹیوب)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کو صدر بنانے کا اعلان تو کر دیا گیا ہے مگر ابھی تک باقائدہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہو سکا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی منظوری کے بعد پارٹی ترجمان فواد چوہدری اعلان کر چکے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی پارٹی صدر ہوں گے، لیکن پارٹی سیکریٹری جنرل اسد عمر کی گرفتار کے باعث نوٹیفیکیشن تاحال جاری نہیں ہو سکا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی سربراہ عمران خان کی موجودگی میں صدر کے پاس کیا اختیارات ہوں گے اور وہ انتظامی طور پر کتنے فعال ہوسکتے ہیں؟

ق لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سابق صوبائی وزیر باؤ رضوان کے مطابق ’چوہدری پرویز الہی پی ٹی آئی میں بااختیار اور موثر عہدیدار ہوں گے۔

’انہوں نے حالیہ سیاسی صورت حال میں جس طرح عمران خان کا ساتھ دیا ہے اس کا پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو مکمل احساس ہے۔‘

پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری کے بقول ’چوہدری پرویز الہی کو پارٹی عہدہ دینے سے سیاسی طور پر تحریک انصاف مضبوط ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جماعت کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کے رہا ہوتے ہی باقائدہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ’عمران خان کی موجودگی میں پارٹی کا کوئی بھی عہدیدار فیصلہ سازی میں ان جتنا بااختیار نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی تحریک انصاف ہو یا کوئی دوسری سیاسی جماعت پارٹی سربراہ کا عہدہ ہی موثر تصور ہوتا ہے، جبکہ دوسرے عہدیدار محض پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔‘

پرویز الہی کی قبولیت

سینیٹر اعجاز چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’چوہدری پرویز الہی نے جس طرح تحریک انصاف کا ساتھ دیا اس سے تمام پارٹی قیادت ان کی معترف ہے۔ انہیں مشاورت کے بعد صدر بنایا گیا ہے۔ لیکن اختیارات کا معاملہ تو وقت کے ساتھ طے ہوتا ہے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا: ’تحریک انصاف میں ویسے تو تمام عہدیداروں کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ چیئرمین عمران خان ہی کرتے ہیں۔

’لہذا چوہدری پرویز الہی چاہے پارٹی صدر بھی ہوں لیکن آئینی اختیار پارٹی سربراہ کے پاس ہی رہتا ہے۔‘

اعجاز چوہدری کے خیال میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں کے ساتھ چوہدری پرویز الہی کے پہلے ہی اچھے تعلقات ہیں، اس لیے عہدہ ملنے کے بعد بھی ان کی قبولیت سب کے لیے آسان ہو گی۔

’عمران خان سمیت مرکزی قیادت کی مشاورت سے ہی انہیں عہدہ دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’جہاں تک ٹکٹوں کی تقسیم یا نچلی سطح پر سیاسی عہدوں پر تقرریوں کا سوال ہے تو وہ بھی طے شدہ معاملات کے تحت ہی ہو گا۔‘

سابق صوبائی وزیر باؤ رضوان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جس طرح پی ڈی ایم کی بجائے چوہدری پرویز الہی نے پی ٹی آئی کا ساتھ  دینے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب میں پہلے بطور سپیکر اور پھر وزیر اعلی کا عہدہ سنبھال کر تحریک انصاف کا ساتھ دیتے رہے، پھر اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلہ پر جس طرح ساتھ دیا۔ تو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت پوری قیادت کو یہ اندازہ ہے کہ چوہدری پرویز الہی اور ان کے ساتھی مکمل طور پر دوسرے عہدیداروں کی طرح تحریک انصاف کے نظریہ پر کھڑے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہر طرح کے معاملات پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ طے پا چکے ہیں، ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہو یا سیاسی فیصلے چوہدری پرویز الہی کی مشاورت سے کیے جائیں گے۔

’جن حلقوں میں ق لیگ کے امیدوار جیتے تھے وہ ٹکٹ تو انہی کو دی جائیں گی، البتہ نئے امیدواروں کو ٹکٹوں کا فیصلہ بھی ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ اس لیے امید کرتے ہیں کہ سب بہتر ہو گا اور پہلے سے اچھا ہو گا۔‘

صحافی سلمان غنی کے بقول، ’تحریک انصاف صدارت کا عہدہ پورے اعزاز کے ساتھ ایک بار سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کو بھی دے چکی ہے۔

’مگر پارٹی رہنماوں نے انہیں دل سے قبول نہیں کیا تھا نہ ہی عمران خان ان کا سیاسی اعتماد جیت پائے تھے۔ یہی وجہ تھی انہوں نے پارٹی کو ایک پریس کانفرنس میں بنیادی سیاسی طرز عمل سے اختلاف کرتے ہوئے عہدے سمیت چھوڑ دیا تھا۔‘

پرویز الہی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریہ

تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی جس طرح اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر چل رہی ہے اور عمران خان اکثر بیانات دیتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے ایسے حالات میں چوہدری پرویز الہی جنہیں اسٹیبلشمنٹ کا حامی سمجھا جاتا ہے کس طرح تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو مطمعن کر پائیں گے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ جس طرح حالیہ دنوں میں انہوں نے عمران خان کی جانب سے سابق جرنل باجوہ کے خلاف بیان بازی پر کھل کر مخالفت کی تھی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

’دوسرا چوہدری پرویز الہی نے ’جیل بھرو تحریک‘ یا اس سے قبل بھی کوئی ایک بیان اسٹیبشلمنٹ کے خلاف نہیں دیا۔‘

سلمان کے بقول: ’اب بھی چوہدری پرویز الہی ایسا بیانیہ اپنانے کو تیار نہیں جو اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو ایسے حالات میں وہ کس طرح انتخابی مہم یا پارٹی اجلاسوں میں عمران خان کے نظریہ کا ساتھ دیں گے؟

’البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عمران خان کی جرنل باجوہ کے بارے میں رائے تبدیل کر دیں۔‘

تجزیہ کار محمل سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’چوہدری پرویز الہی کے آنے سے کچھ پی ٹی آئی کے لیڈرز عدم تحفط کا شکار ہیں۔

’چوہدری صاحب ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور وہ یہ بخوبی سمجھتے ہیں کے پی ٹی آئی کا پنجاب کی سیاست میں مستقبل ہے۔

’اسی وجہ سے انہوں نے پارٹی میں شمولیت کی، ویسے بھی وہ ایک پرانے سیاسی گھرانے سے ہیں اور وضع داری میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں، اس لیے ان کی شمولیت سے پی ٹی آئی کو بھی فائدہ ہو گا۔ کیونکہ ان کو جوڑ توڑ کی سیاست اور لوگوں کو ساتھ لےکر چلنے کا بھی ہنر آتا ہے۔‘

محمل کے مطابق ، ’چوہدری پرویز الہی کی ماضی میں سیاست کو مد نظر رکھا جائے تو یہ نہیں لگتا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ میں عمران خان کا نظریہ فالو کریں گے۔ اب یہ پی ٹی آئی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح پرویز الہی کے سیاسی تجربہ سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اور پرویز الہی کیسے مرکزی عہدے پر خود کو مضبوط کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست