کشمیر پر سلامتی کونسل اجلاس: بھارت اور پاکستان دونوں باہر

مشاورتی اجلاس میں سلامتی کونسل کے تمام پندرہ اراکین ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں حقیقی فریق یعنی پاکستان اور بھارت نہیں بیٹھ سکیں گے۔(اے ایف پی)

سلامتی کونسل آج (جمعے کی) شام مسئلہ کشمیر پر غور کرے گی۔ پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا سلامتی کونسل کا یہ اجلاس بند کمرے میں ہو گا۔ جس میں کونسل کے تمام مستقل اور غیر مستقل اراکین ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

بھارت نے 5 اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔  جس پر پاکستان اور کشمیری احتجاج کر رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 13 اگست کو سلامتی کونسل سے مسئلہ کشمیر پر بحث کے لیے اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں حقیقی فریق یعنی پاکستان اور بھارت نہیں بیٹھ سکیں گے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں سے کوئی بھی اس وقت سلامتی کونسل کا رکن نہیں ہے۔

اجلاس کس نوعیت کا ہے؟

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق جمعے کی شام ہونے والا سلامتی کونسل کا اجلاس دراصل غیر رسمی مشاورت ہے۔ جو امریکہ کے شہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کی عمارت میں واقع  مشاورتی کمروں میں منعقد ہو گا۔

مشاورتی اجلاس میں سلامتی کونسل کے تمام پندرہ اراکین ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں سفارتی ذمہ داریاں انجام دینے والے سابق سفیر علی سرور نقوی کے مطابق: اس اجلاس میں مستقل اور غیر مستقل اراکین مسئلہ کشمیر پر صلاح مشورہ کریں گے  اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں شرکا کے سامنے  کئی رپورٹس موجود ہوتی ہیں۔ جن کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان میں موجود معلومات کی بنیاد پر اجلاس میں بحث ہوتی ہے۔

علی سرور نقوی کا کہنا تھا کہ مشاورتی اجلاس سے کوئی فورا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ بلکہ اراکین ایک طریقے سے ذہن بنائیں گے کہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے رسمی اجلاس میں جانے کے اہل ہے یا نہیں۔

تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جمعے کو سلامتی کونسل کا ابتدائی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اور اس سے کوئی حتمی نتیجہ نکلنے کی امید نہ رکھی جائے۔

انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اراکین زمینی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کی موجودہ سنجیدگی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

اجلاس کتنا اہم ہے؟

ماہرین کے خیال میں مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل تک لے جانا پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب عبداللہ حسین ہارون نے ایک نجی ٹی وی چینل پر کہا کہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل تک پہنچانے کے لیے پاکستان مبارک باد کا مستحق ہے۔

سابق سفیر علی سرور نقوی نے بھی مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے اجلاس کو پاکستان کی کامیابی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر عالمی سطح تک پہنچ جائے گا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق: سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بھارت کا دعوی کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے رد ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ کی کسی قرار داد میں مسئلہ کشمیر کا ذکر آخری مرتبہ 1998 میں ہوا تھا۔ جب پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔ جس میں کشمیر کا بلاواسطہ ذکر ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشاورتی اجلاس کے بعد

سابق سفیر علی سرور نقوی کہتے ہیں مشاورتی اجلاس میں ہی سلامتی کونسل کے اراکین فیصلہ کر لیں گے کہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ مستقبل میں کیا کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کونسل اراکین مسئلہ کو سنجیدہ جانتے ہیں تو اسے سلامتی کونسل کے رسمی اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سلامتی کونسل کا رسمی اجلاس مسئلہ کشمیر پر تفصیلی بحث کرے گا۔ انہوں نے کہ مسئلے کی نوعیت، اہمیت اور سنجیدگی کے مدنظر سلامتی کونسل کشمیر کے لیے نمائندہ خصوصی بھی مقرر کر سکتا ہے۔ جو عملی طور پر تحقیق اور سٹڈی کے ذریعے علاقے میں موجود زمینی حقیقتیں جاننے کی کوشش کرے گا۔

ماضی میں بھی سلامتی کونسل کشمیر کے لیے چار خصوصی نمائندوں کا تقرر کر چکی ہے۔

علی سرور نقوی کے مطابق: رسمی مشاورت میں دونوں اطراف کا نقطہ نظر سننے کے بعد یا نمائندہ خصوصی کی رپورٹ کی روشنی میں سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر پر قرارداد منظور کر سکتی ہے۔ اور یا صرف صدارتی بیان تک ہی اکتفا بھی کیا جا سکتا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان قوم کو احمقوں کی جنت میں نہیں رہنا چاہئیے۔ کیونکہ مسلم امہ کے بڑے بڑے ملکوں کے ہندوستان سے معاشی اور کاروباری روابط ہیں۔

پاکستان کی تیاری

اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفارتی عملہ گذشتہ دو روز سے سلامتی کونسل کے اجلاس کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

نیو یارک میں موجود اقوام متحدہ ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بدھ اور جمعرات کے روز پاکستانی سفارتی عملے نے کئی رکن اور غیر رکن ممالک کے وفود اور نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔  اور انہیں پاکستان کا موقف سمجھانے کی کوشش کی۔

ذرائع نے بتایا کہ صرف جمعرات کے روز اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے پندرہ اجلاسوں میں شرکت کی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق: ہم پوری تیاری سے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت بھی لابنگ کر رہا ہے کہ یہ اجلاس نہ ہو سکے۔

سلامتی کونسل کیا ہے؟

سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے چھ اہم اداروں میں سے ایک ہے۔ جس کی ذمہ داریوں میں سر فہرست دنیا کے امن و امان اور سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔

عالمی تنظیم کے چارٹر میں تبدیلیوں کا فیصلہ کرنا اور اس میں شامل ہونے کے خواہش مند ممالک سے متعلق فیصلے کرنا بھی سلامتی کونسل کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

دنیا کے پندرہ ملک سلامتی کونسل کے رکن ہوتے ہیں۔ جن میں پانچ مستقل رکن ہیں۔ جن میں امریکہ، روس، چین، فرانس، اور برطانیہ شامل ہیں۔

دنیا کی ان پانچ بڑی طاقتوں کے پاس سلامتی کونسل میں ویٹو کی طاقت ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے وہ کونسل کے کسی بھی فیصلے کو رد کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین ہر دو سال بعد تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

اس وقت غیر مستقل اراکین میں بلجئیم، آئیوری کوسٹ، ڈومینیکن ریپبلک، گینی، جرمنی، انڈونیشیا، کویت، پیرو، پولینڈ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

غیر مستقل اراکین کونسل کے اجلاسوں میں ہونے والی بحث میں حصہ لے اور فیصلوں پر ہونے والی ووٹنگ میں حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کے پاس ویٹو پاور موجود نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان