انڈیا کی مشرقی ریاست اڈیسہ کے ضلع بالاسور کے قریب جمعے کی شام پیش آنے والے ٹرین حادثے کے بعد پریشان حال رشتہ دار اتوار کو بھی اپنے پیاروں کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں جو لاپتہ ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام ریل گاڑیوں کو پیش آنے والے اس حادثے کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں جب کہ حادثے میں جان سے جانے والوں کی تعداد کم سے کم 288 ہو چکی ہے۔
حادثے کے مقام پر ملبے کا اونچا ڈھیر لگ چکا ہے۔ حادثے کے نتیجے میں ریل گاڑیوں کی بوگیاں ٹوٹ چکی ہیں اور کچھ بوگیوں کا خون آلود ملبہ پٹریوں سے بہت دور پڑا ہے۔
عبدالمختار نامی عینی شاہد کے مطابق ’لوگ بہت گِڑگِڑا رہے تھے۔ پکار رہے تھے کہ بھائی بچا لو بچا لو۔ کوئی پانی دے دے۔ بہت سارے لوگ چلا رہے تھے۔ مختلف انسانی اعضا بکھرے پڑے تھے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔‘
حادثے میں محفوط رہنے والے محقق 27 سالہ انوبھوداس نے بتایا کہ ’میں نے خونی مناظر دیکھے۔ لاشیں کٹی پھٹی ہوئی تھیں اور ایک شخص جن کا بازو کٹ چکا تھا، ان کا زخمی بیٹا ان کی مدد میں مصروف تھا۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرین حادثے میں بیٹی کو کھونے والی 55 سالہ مسافر کوشیدہ داس کے بقول: ’حادثے کے وقت ٹرین سے دیوالی کے پٹاخوں کی طرح کی آوازیں آئیں۔ ایک ٹرین دوسری ٹرین کے ساتھ ٹکرا رہی تھی۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کیا ہو گیا کہ اتنی تیز آواز ہے۔ ہم ڈولنے لگے میں اور میری بیٹی ایک ساتھ ڈولنے لگے اور تھوڑی دیر بعد بہت زور کی آواز آئی اور بھر بوگیاں الٹنے اور نیچے گرنے لگیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم لڑھکتے رہے۔ میری بیٹی وہیں پھنس گئی اور میری بیٹی میری آنکھوں کے سامنے لوہے کے بھاری ٹکڑے کے نیچے دب گئی۔ میں ایک کونے میں کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گئی لیکن میرے سر میں لوہے کی سلاخ یا کوئی دوسری چیز لگی۔‘
ان کے مطابق ’میں نے سوچا کہ اپنی بیٹی کو لوہے کے ٹکڑے کے نیچے سے کیسے نکالوں لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ اتنے بھاری لوہے کو کیسے حرکت دی جائے۔ میری بیٹی روتی رہی اور میری آنکھوں کے سامنے مر گئی۔‘
واقعات کی درست ترتیب کے بارے میں الجھن ہے لیکن اطلاعات میں ریلوے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سگنل کی خرابی کی وجہ سے جنوب میں کولکتہ سے چنئی جانے والی ریل گاڑی کورومنڈل ایکسپریس کو ساتھ والی پٹڑی پر بھیج دیا گیا تھا۔
یہ ریل گاڑی مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی اور ملبے کی وجہ سے انڈیا میں ٹیکنالوجی کے مرکز بنگلورو سے شمال کی طرف جانے والی ایکسپریس پٹڑی سے اتر گئی جو اس وقت اس مقام سے گزر رہی تھی۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور ہسپتال میں زیر علاج زخمی مسافروں کی عیادت کی۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ’حادثے کے کسی بھی ذمہ دار کو بخشا نہیں جائے گا۔‘
سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن سے بات چیت میں وزیر اعظم کے بقول: ’میری دعا ہے کہ ہم دکھ کی اس گھڑی سے جتنی جلدی ہو سکے نکل آئیں۔‘
جائے حادثہ کے قریب ایک ہائی سکول کو عارضی مردہ خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ حکام نے بتایا کہ ’بہت سی لاشیں اس قدر مسخ ہو چکی تھیں کہ بہت سے پریشان حال خاندان اپنے پیاروں کو صرف زیورات کے ٹکڑوں سے ہی پہچان پائے۔‘
لاشیں لوگوں کے حوالے کرنے کے ذمہ دار پولیس افسر رانا جیت نائک نے بتایا کہ ’ایسی لاشیں بھی تھیں جن کے جسم کے کچھ باقی بچے ہیں۔‘
شدید گرمی میں بہت سی لاشوں کو بڑے مراکز میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ حکام نے بتایا کہ کچھ لاشوں کو صرف ڈی این اے ٹیسٹ سے شناخت کی جائے گا۔
محقق انوبھو داس نے مزید بتایا کہ وہ ریل گاڑی کی آخری بوگی میں تھے۔ انہوں نے چرچرانے کی خوفناک آواز سنی جو دور سے آ رہی تھی۔ ان کی بوگی الٹی نہیں اور جب وہ رک گئی تو اس میں سے باہر نکل گئے اور اس طرح محفوظ رہے۔
داس کا کہنا تھا کہ ’میں جائے حادثہ سے جانے تک لاشیں گن نہیں پایا تھا۔ اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔‘
جائے حادثہ کے قریب موجود لوگ ایمرجنسی سروسز سے بھی پہلے متاثرہ مسافروں کی مدد کے لیے تیزی سے پہنچ گئے۔
عینی شاہد 20 سالہ ہرنمے راٹھ کے مطابق انہوں نے اگلے چند گھنٹے میں مزید لوگ کی موت اور درد دیکھا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
حکام نے بتایا کہ جائے حادثہ اور ریاستی دارالحکومت بھونیشور کے درمیان تقریباً 200 کلومیٹر (125 میل) دور ہر ہسپتال میں حادثے کے متاثرین کو پہنچایا گیا۔ انہیں لے جانے کے لیے تقریباً 200 ایمبولینس گاڑیاں اور یہاں تک کہ بسیں بھی استعمال کی گئیں۔
امدادی کارروائیوں کا اعلان ہفتے کی شام اس وقت کیا گیا جب ہنگامی عملے نے ملبے میں لوگوں کو تلاش کرنے کا کام شروع کیا۔ لاشوں کو پٹڑی کے قریب رکھ کر ان پر سفید چادریں ڈال دی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بالاسور ایمرجنسی کنٹرول روم کے اہلکار نے بتایا کہ ’تمام لاشوں اور زخمیوں کو حادثے کے مقام سے نکال لیا گیا ہے۔‘ اڈیشہ فائر سروسز کے ڈائریکٹر جنرل سدھونشو سارنگی نے کہا کہ اس وقت مرنے والوں کی تعداد 288 ہے لیکن خدشہ ہے کہ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وہ 380 تک جا سکتی ہے۔
اڈیشہ ریاست کے چیف سکریٹری پردیپ جینا نے تصدیق کی کہ تقریباً 900 زخمیوں کو سپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
انڈیا کے پاس دنیا سب سے بڑا ریل نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔ ملک میں نے کئی سال میں کئی حادثات ہو ہیں۔ ان میں سے بدترین 1981 میں پیش آنے والا حادثہ ہے جب بہار میں ایک پل کو عبور کرتے ہوئے ٹرین پٹری سے اتر گئی اور دریا میں جا گری جس سے 800 سے 1000 کے درمیان لوگ جان سے گئے۔
جمعے کو پیش آنے والا حادثہ ملک میں تیسرا بدترین حادثہ ہے اور 1995 کے حادثے کے بعد سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔
1995 کے حادثے میں آگرہ کے قریب فیروز آباد میں دو ایکسپریس ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں 300 سے زیادہ لوگوں کی جان گئیں تھیں۔
حالیہ برسوں میں ریلوے کے حفاظتی نظام میں نمایاں بہتری لانے والی ٹیکنالوجی میں نئی سرمایہ کاری اور اپ گریڈ کرنے کے باوجود یہ حادثہ پیش آیا ہے۔
انڈیا کی وزارت ریلوے نے اس حادثے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
انسانی جانوں کے اس ضیاع پر دنیا بھر سے تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔
کیتھولک مسیحوں کے روحانی پیش وا پوپ فرانسس کے بیان میں کہا گیا کہ انہیں اس حادثے پر بہت زیادہ جانی نقصان پر گہرا دکھ پہنچا ہے۔ انہوں نے زخمیوں کی صحت یابی کی دعا بھی کی ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی متاثرین کے خاندانوں سے اپنی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے اپنی ٹویٹ میں انڈین صدر اور وزیر اعظم سے تعزیت کی ہے۔
جبکہ امریکی وزیر خارجہ اینٹی بلنکن نے بھی متاثرہ لوگوں کے خاندانوں سے تعزیت کی ہے۔