اچار کی دنیا میں آم کا اپنا ہی ایک مقام ہے، لیکن لسوڑا بھی کچھ پیچھے نہیں، جس کی لذت کھانے والوں کو انگلیاں چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
لسوڑے کا پھل چھوٹے بیر کے سائز کا ہوتا ہے۔ یہ لیس دار پھل ہے جو ویسے بھی کھایا جا سکتا ہے اور سبزی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک کاشت کار اور عام لوگ اسے گھروں میں اگاتے تھے مگر آبادی کے بے تحاشہ پھیلاؤ اور درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے یہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اب لسوڑے کا درخت بہت کم جگہوں پہ نظر آتا ہے۔
پنجاب کے ضلع میانوالی کے شہر کالا باغ میں بھی لسوڑے کا اچار تیار کیا جاتا ہے اور لوگ اسے خاص طور پر اپنے عزیز واقارب کے ہاں بھجواتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کالاباغ میں تین نسلوں سے اچار کا کاروبار کرنے والے محمد اسماعیل کلیار بتاتے ہیں کہ لسوڑے کا درخت 30 سے 40 فٹ بلند ہوتا ہے اور آم کے اچار کے بعد سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا لسوڑے کا اچار ہے۔ اسے اس کی ٹھنڈی تاثیر کی وجہ سے بھی پسند کیا جاتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سب سے پہلے درخت سے لسوڑے اتار کر انہیں ڈنڈیوں سے الگ کیا جاتا ہے اور بعد ازاں ابال کر نرم کر لیا جاتا ہے۔ پھر ہوادار جگہ پر ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے، اس کے بعد جب لسوڑا خشک ہو جاتا ہے تو اس میں نمک، مصالحہ جات اور سرسوں کا تیل شامل کیا جاتا ہے۔
اچار بنانے کے لیے سبز رنگ کے کچے لسوڑے استعمال کیے جاتے ہیں جو اچار کی تیاری میں اچھے ہوتے ہیں۔ اگر لسوڑا پوری طرح پک جائے اور اس کا رنگ سرخی مائل ہو جائے تو یہ اچار بنانے کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔
اطبا کے مطابق بلغم، کھانسی، پھیپھڑوں کے انفیکشن اور پرانے بخار کے علاوہ کئی بیماریوں کے لیے لسوڑا ایک مفید پھل ہے۔
لسوڑے کا پھل مئی اور جون کے مہینے میں تیار ہو کے اچار بنانے کے قابل ہو جاتا ہے اور یہ اچار کئی سال تک کھایا جا سکتا ہے کیونکہ سرسوں کے تیل کی وجہ سے یہ خراب نہیں ہوتا۔