پاکستان میں لہسن کی نئی قسم نارک جی ون کی دھوم کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے بیشتر اضلاع میں اس کی کاشت پر لاکھوں اور کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے افراد اپنا پیسہ ڈوب جانے کا شکوہ کر رہے ہیں۔
نارک جی ون لہسن کی کاشت سے کامیابی کے ساتھ سینکڑوں من پیداوار حاصل کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تک جہاں فی کلو بیج 14 ہزار روپے میں فروخت ہو رہا تھا، اب اسے چند سو روپے میں بھی خریدنے والا کوئی نہیں رہا۔
2020 میں زراعت کی دنیا میں لہسن کی نئی قسم نارک جی ون متعارف ہونے کے بعد اپنی پیداواری صلاحیتوں اور کم پیسوں پر بیش بہا منافع کمانے کی خاصیت کی وجہ سے یہ قسم ہر خاص و عام کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز بنی تھی۔ اس دلچسپی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا، جب کچھ سرمایہ داروں نے اس میں کروڑوں روپے کمانے کا انکشاف کیا۔
نتیجتاً وہ افراد بھی اس میدان میں کود پڑے، جو برسوں سے اس انتظار میں تھے کہ کوئی منافع بخش کاروبار مل جائے تو اپنی جمع پونجی وہ اس پر لگائیں۔ رہی سہی کسر یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے پوری کی، جنہوں نے اسے ’زمین میں سونا اگنے‘ سے تشبیہ دے کر عوام کو تحقیق کی بجائے لالچ پر اکسایا۔
ضلع صوابی کی ثمین گل بھی اس جھانسے میں آگئیں اور انہوں نے خاندان کے نوجوانوں کو اس موضوع پر بحث کرتے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے کا سنا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ثمین نے کہا: ’15 لاکھ روپے میں بیج اور کاشت کی کُل لاگت سے 39 من فصل تیار ہوچکی ہے، لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ دام گر گئے ہیں اور خریدنے والا کوئی نہیں رہا۔ یہی حال خاندان کے دیگر سرمایہ کاری کرنے والوں کا بھی ہے۔ کسی کے پاس چار سو من لہسن ہے تو کسی کے پاس دو ہزار من تک۔ کچھ نہیں سوجھ رہا کہ اب کیا کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں اگر انہیں خرچ کی ہوئی رقم ہی مل جائے تو غنیمت ہوگی۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے سجاد احمد نے بھی دوست احباب سے قرض لے کر اور ایک عدد گاڑی بیچ کر اس کاروبار میں 23 لاکھ خرچ کیے تھے، لیکن اب تک انہوں نے صرف تین لاکھ روپے کمائے ہیں اور باقی کا مال جوں کا توں پڑا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ تب تک ہار نہیں مانیں گے جب تک اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس نہیں حاصل کرلیتے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سجاد احمد نے کہا: ’میں اس بیج کو اپنے پاس رکھ کر دوبارہ کاشت کروں گا۔ چونکہ اس لہسن کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی کم تعداد بھی زیادہ پیداوار دیتی ہے، لہذا بار بار اگانے سے مطلوبہ ہدف پورا کیا جاسکتا ہے۔‘
نارک جی ون میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور اتنی ہی تعداد میں مختلف کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ کسی نے جمع پونجی تو کسی نے قرض لے کر سرمایہ کاری کی لیکن عوام نے ڈیمانڈ اور سپلائی کی سائنس کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نارک) اسلام آباد میں لہسن کی نئی قسم دریافت کرنے والی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ہدایت اللہ کا کہنا ہے کہ 2014 میں لہسن کی اس نئی قسم پر اس غرض سے تحقیق شروع ہوئی تھی کہ ملک میں لہسن کی کمی کو پورا کرکے اس مد میں 66 ارب سے زائد روپے درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
نارک جی ون کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق یہ پیداواری صلاحیت میں ہائبرڈ لہسن کے برابر ہے اور جہاں مقامی لہسن کی پیداواری صلاحیت فی ایکڑ 70 سے 80 من ہے وہاں نارک جی ون ورائٹی کی پیداواری صلاحیت دو سو سے ڈھائی سو من فی ایکڑ ہے، جس سے حالیہ مہینوں تک فی ایکڑ ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے تک منافع ملتا رہا۔
ڈاکٹر ہدایت اللہ نے انڈپیںڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کسانوں یا سرمایہ کاری کرنے والوں سے غلطی یہ ہوئی کہ ایک جانب جہاں انہوں نے لالچ میں زیادہ پیسہ لگایا وہیں انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ ان کا خریدار کون ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دراصل فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹر ہوئے بغیر ایک عام شخص بیج کا کاروبار نہیں کرسکتا۔ پہلے آپ اس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ بطور کمپنی رجسٹریشن کرتے ہیں۔ دوسری غلطی لوگوں سے یہ ہوئی کہ نارک جی ون کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر ہر طرح کے بیج خریدے جاتے رہے، اگرچہ دیگر اقسام بھی بری نہیں۔‘
ڈاکٹر ہدایت اللہ نے بتایا کہ جو لوگ ان کے ادارے میں مشاورت کے لیے آئے، انہیں بروقت رہنمائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ کس حد تک سرمایہ کاری میں محتاط رہ سکتے ہیں۔
مارکیٹ میں پروپیگنڈہ
2022 میں انڈپینڈنٹ اردو پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ضلع خیبر کے رہائشی اور زراعت میں پی ایچ ڈی سکالر نسیم خان کا ذکر کیا گیا تھا، جنہوں نے پانچ جرب زمین پر 19 لاکھ روپے خرچ کرکے نارک-جی ون لہسن کی کاشت کرکے 60 لاکھ 90 ہزار کمائے تھے۔
اب جبکہ مارکیٹ کے حالات بدل چکے ہیں، لہذا ان سے دوبارہ رابطہ کیا گیا۔ نسیم خان نے بتایا کہ دراصل جس وقت انہوں نے نارک جی ون کی کاشت کی تھی، تب اس کی کاشت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔
’2022 میں ہم نے فی کلو بیج پانچ سو روپے میں خریدا تھا اور جب مئی 2021 میں فصل تیار ہوئی تو فی کلو بیج پانچ ہزار میں تھا۔ تاہم اس بار مسئلہ یہ ہوا کہ بڑے سرمایہ کاروں نے مارکیٹ میں خوف پھیلا دیا ہے کہ جی ون سستا ہوگیا ہے، اس پروپیگنڈے کی وجہ سے جنہوں نے 12 ہزار فی کلو خریدا تھا جب انہیں پتہ چلا تو انہوں نے اپنا مال سستا بیچ دیا۔‘
نسیم خان نے بتایا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ مارکیٹ میں اس وقت مانگ نہیں ہے اور مال زیادہ ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اسی قسم کا پروپیگنڈہ پچھلے سال بھی چلایا گیا تھا، لیکن وقت آنے پر فی کلو 14 ہزار روپے میں بیچا گیا۔
ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ سراب کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ’رسد اور طلب‘ کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ماہرین زراعت سے مشاورت بھی ضرور کرنی چاہیے۔