’پہلے بمباری، اب سیلاب‘: ڈیم کی تباہی سے یوکرین میں لوگوں کا انخلا

روس اور یوکرین دونوں نے ایک دوسرے پر کاخووکا ڈیم میں شگاف ڈالنے کا الزام لگایا ہے جو ان ممالک کے درمیان جنگ کی فرنٹ لائن پر موجود ہے۔

روس کے زیر قبضہ کاخووکا ڈیم پر حملے کے بعد یوکرین کی انتظامیہ بدھ کو سیلاب زدہ علاقوں سے ہزاروں لوگوں کے انخلا میں مصروف ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس اور یوکرین دونوں نے ایک دوسرے پر کاخووکا ڈیم میں شگاف ڈالنے کا الزام لگایا ہے جو ان ممالک کے درمیان جنگ کی فرنٹ لائن پر موجود ہے اور یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ کو ٹھنڈا پانی فراہم کرتا ہے۔

یوکرین کے مطابق روس نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی اس ڈیم پر قبضہ کر لیا تھا۔

ڈیم کی تباہی کے بعد سفارتی ذرائع نے بتایا کہ روس اور یوکرین کی درخواستوں کے بعد منگل کی شب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ڈیم کی تباہی سے فرنٹ لائن کے دونوں اطراف سے لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق سیلاب کے باعث لوگ نشیبی علاقوں سے ڈیم کے قریب واقع خیرسون شہر کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔

ایک متاثرہ شخص لیودمائلا نے اے ایف پی کو بتایا: ’پہلے بمباری ہو رہی تھی اور اب سیلاب آ رہا ہے۔‘

سرگئی نامی ایک شہری نے کہا: ’یہاں سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ ڈیم سے پانی شہر میں داخل ہو گیا جو 2022 میں ہونے والی شدید لڑائی کے دوران پیش آنے والی افراتفری کا منظر پیش کر رہا ہے۔‘

یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ کل 24 دیہات سیلاب کی زد میں آئے ہیں اور 17 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل اینڈری کوسٹن نے کہا کہ ڈیم کی تباہی سے 40 ہزار سے زیادہ لوگوں کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس کے زیر قبضہ متاثرہ علاقے سے مزید 25 ہزار لوگوں کو نکالنے کی ضرورت ہے۔

صدارتی مشیر اولیکسی کولیبا نے کہا کہ انخلا کل اور آنے والے دنوں میں بس اور ٹرین کے ذریعے جاری رہے گا۔

ردعمل کا مطالبہ

یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے روس پر ’بڑے پیمانے پر تباہی‘ جیسے اقدام کا الزام لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرینی حکام کو خدشہ ہے کہ 80 بستیاں سیلاب سے متاثر ہیں۔

صدر زیلنسکی نے دنیا سے ’رد عمل‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ جرم بہت زیادہ خطرات کا باعث ہے اور اس کے لوگوں کی زندگیوں اور ماحول کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔‘

گذشتہ سال اکتوبر میں زیلنسکی نے روس پر ڈیم میں بارودی سرنگیں بچھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس کی تباہی سے یورپ میں پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر آئے گی۔

یوکرین نے کہا کہ ڈیم کی تباہی سے 150 ٹن انجن آئل دریا میں بہہ گیا ہے۔

یوکرینی وزارت زراعت نے کہا کہ دریا کے دائیں کنارے پر تقریباً 10 ہزار ہیکٹر رقبے پر فصلیں سیلاب کی زد میں آ گئیں اور بائیں کنارے پر اس سے بھی کئی گنا زیادہ۔

’جنگی جرم‘

مغربی طاقتوں نے روس کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یورپی یونین کے سربراہ چارلس مشیل نے اسے ’جنگی جرم‘ قرار دیا ہے جب کہ نیٹو کے سربراہ جینز سٹولٹنبرگ نے کہا کہ ڈیم کی تباہی ’اشتعال انگیز‘ اقدام ہے۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت زمین پر کیا صورت حال ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی وزیراعظم رشی سونک کا کہنا تھا کہ ملک کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ آیا روس نے ڈیم کو دھماکے سے اڑایا ہے یا نہیں لیکن یقینی طور پر  کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اس حملے کو یوکرین پر روسی حملے کا ایک اور تباہ کن نتیجہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’آج کا سانحہ لوگوں پر جنگ کی ہولناک قیمت کی ایک اور مثال ہے۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی علاقائی تنظیم نے کہا کہ ’دریائے نیپر کے دونوں جانب قصبے اور دیہات زیر آب آ رہے ہیں۔ کاخووکا ڈیم کی تباہی کی انسانی اور ماحولیاتی لحاظ سے ایک بہت بڑی انسانی تباہی ہے۔‘

عالمی تنظیم نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی برادری کو ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔‘

تنظیم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین خاص طور پر ڈیموں کو تباہ کرنے سے منع کرتے ہیں جن سے شہریوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ ڈیم کی تباہی کی وجہ سے آنے والے سیلاب کے ’علاقے کی انسانی صورت حال پر شدید اور طویل مدتی نتائج کا امکان ہے۔

دوسری جانب روس نے کہا کہ ڈیم کو جزوی طور پر یوکرینی افواج کی جانب سے ’متعدد حملوں‘ سے تباہ کیا گیا ہے۔ ماسکو نے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ کیئف کے اس ’مجرمانہ اقدام‘ کی مذمت کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا