یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی جدید ترین لڑاکا طیاروں تک رسائی اور یوکرینی پائلٹوں کی تربیت کے معاملے میں طویل جدوجہد کے بعد امریکی حمایت حاصل کر کے جی سیون کے مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے جاپان کے شہر ہیروشیما پہنچ گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرینی صدر کا کبھی کبھار کیا جانے والا طویل سفر نہ صرف امریکی صدر جو بائیڈن جیسے اتحادیوں کے ساتھ ملاقات بلکہ سربراہ اجلاس میں اہم غیر وابستہ ملکوں جن میں انڈیا اور برازیل شامل ہیں، کی توجہ حاصل کرنے کا بھی موقع ہے۔
زیلنسکی حیرت انگیز طور پر جاپان پہنچے ہیں۔ اس سے پہلے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس سے پہلے انہوں نے جدہ میں عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ ایک سفارتی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ہفتے کی دوپہر ایک فرانسیسی طیارے کے ذریعے ہیروشیما پہنچیں گے۔
زیلنسکی طویل عرصے تک واشنگٹن کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ یوکرین کو ایف 16 طیاروں کی ضرورت ہے۔ وہ اس ضمن میں پیشرفت کے بعد جاپان پہنچ رہے ہیں۔
یوکرین کو طیاروں کی فراہمی میں معاملے میں پیشرفت ہو رہی تھی لیکن واشنگٹن کی حمایت اہم ہے کیوں کہ اتحادی ملکوں کی طرف سے خریدے گئے امریکی آلات کی دوبارہ برآمد کے لیے قانونی طور پر اس کی منظوری ضروری ہے۔
اس سے قبل امریکہ نے قبل طیارے نہ دینے کی وجہ کے طور پر پائلٹوں کی طویل تربیت اور زیادہ اخراجات کا حوالہ دیا تھا۔ حکام کا اصرار تھا کہ کیئف کے فضائی دفاع کو بہتر کے لیے زیادہ سستے طریقے طریقے موجود ہیں۔
لیکن اب ایف 16 طیاروں کا مغربی ملکوں کے تیار کردہ ٹینکوں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سمیت دفاع جدید نظاموں کی فہرست میں شامل ہونے کا امکان ہے۔
یوکرین کے حمایتی ملک ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد ایف 16 طیارے فراہم کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
بائیڈن نے جاپان میں جی سیون کے رہنماؤں کو بتایا کہ واشنگٹن اب یوکرین اس درخواست کی حمایت کرے گا۔ اس اقدام کو زیلنسکی نے ’تاریخی فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ وہ ہیروشیما میں اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے تبادلہ خیال کرنے کی خاطر صدر جوبائیڈن سے ملاقات کریں گے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بائیڈن اس ضمن مکیں کسی تاریخ کی تصدیق کیے بغیر بات چیت کے ’منتظر‘ ہیں۔
قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سلیوان نے اصرار کیا کہ لڑاکا طیارے کا فیصلہ امریکی پالیسی میں یوٹرن کی عکاسی نہیں کرتا۔
انہوں نے ہیروشیما میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’کچھ بھی نہیں بدلا۔ یوکرین کو ہتھیاروں، آلات اور تربیت کی فراہمی کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر لڑائی کے پیش نظر ضروریات کے مطابق ہے۔
’ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں سڑک پر نظر ڈالنے اور یہ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ یوکرین کو کس چیز کی ضرورت ہے۔۔۔ روسی جارحیت کو روکنے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے؟‘
’ایف 16، فورتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے اس ملے جلے سامان کا حصہ ہیں۔ پہلا واضح مرحلہ پائلٹوں کی تربیت کا ہے اور پھر اتحادیوں، شراکت داروں اور یوکرین کے ساتھ مل کر کام کرنا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو عملی طور پر طیارے کس طرح فراہم کیے جائیں گے۔‘
تیسری عالمی جنگ سے گریز
یوکرین کے پائلٹوں کی تربیت کی ٹائم لائن ابھی تک واضح نہیں ہے۔ امریکی حکام نے پہلے اندازہ لگایا تھا کہ اس میں 18 مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود طیاروں کی فراہمی کے فیصلے کا برطانیہ سمیت اتحادیوں نے خیر مقدم کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’برطانیہ یوکرین کے ضروری فضائی جنگی صلاحیت کے لیے امریکہ اور ہالینڈ، بیلجیم اور ڈنمارک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ ہم متحد ہیں۔‘
سلیوان نے اس بات سے انکار کیا کہ طیاروں کی فراہمی سے یوکرین کی جنگ مزید بڑھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین نے وعدہ کیا ہے کہ روس کے اندر حملوں کے لیے کوئی امریکی فوجی سازوسامان استعمال نہیں کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع میں اس کی حمایت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے جا رہے ہیں اور ہم اس طریقے سے آگے بڑھنے جا رہے ہیں جس سے تیسری عالمی جنگ سے بچا جا سکے۔‘
زیلنسکی کی آمد کا سربراہی اجلاس کے باقی ماندہ دو دنوں پر گہرا اثر پڑے گا۔ یوکرین کی وجہ سے دوسرے کانٹے دار موضوعات کی ایک طویل فہرست سے توجہ ہٹ جائے گی۔ ان تنازعات میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی اور اقتصادی طاقت کے بارے میں خدشات کو کیسے دور کرنا بھی شامل ہے۔
جی سیون اجلاس کی ہفتے کو ہونے والی نشست میں ’معاشی جبر‘ اور رسد کے شعبے کے اہم حصوں کو متنوع بنانے کے معاملات پر توجہ دی جائے گی۔