امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا ہے کہ عہدہ چھوڑنے کے بعد ان پر خفیہ دستاویزات پاس رکھنے کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سابق صدر پر عائد کی جانے والی فرد جرم ان کے لیے سب سے زیادہ سنگین قانونی خطرہ بن گئی ہے کیوں کہ مجرمانہ تحقیقات کے طوفان نے دوسری مرتبہ امریکہ کا صدر بننے کے ان کے ارادے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’بدعنوان بائیڈن انتظامیہ نے میرے وکلا کو مطلع کیا ہے کہ مجھ پر فرد جرم عائد کی گئی ہے بظاہر دستاویزت کے ڈبوں کی افواہوں کے حوالے سے۔‘
ٹرمپ کی جانب سے بریک کی جانے والی خبر امریکہ کے لیے تاریخی لمحے کی دھماکہ خیز خبر تھی۔ کیوں کہ امریکہ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے فوج کے موجودہ یا کسی سابق کمانڈر انچیف نے وفاقی الزامات کا سامنا کیا ہو۔
ٹرمپ کے اس دعوے کے حوالے سے محکمہ انصاف کی جانب سے فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ حالاں کہ اخبار نیویارک ٹائمز سمیت کچھ امریکی میڈیا اداروں نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں، ٹرمپ، جنہوں نے دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے، نے کہا کہ انہیں منگل کو میامی میں وفاقی عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکہ کے سابق صدر کے ساتھ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔‘
اس معاملے سے واقف لوگوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ٹرمپ پر سات جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں جان بوجھ کر قومی دفاعی راز پاس رکھنا، جھوٹے بیانات دینا اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش کرنا شامل ہے۔
ٹرمپ، جو اگلے ہفتے 77 سال کے ہو جائیں گے، کسی غلط کام میں ملوث ہونے کی کئی مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔
ٹرمپ وہ پہلے سابق یا موجودہ صدر ہیں جن پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مارچ میں مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نے ان پر فرد جرم عائد کی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے الیکشن سے پہلی فحش فلموں کی اداکارہ کو خاموش رہنے کے لیے رقم دی۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ ان کا ٹرمپ کے ساتھ معاشقہ رہ چکا ہے۔
ٹرمپ کی ابتدائی آن لائن پوسٹوں کے بعد چلائی گئی مہم کے دوران فرد جرم ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
کانگریس میں ٹرمپ کے اتحادی ان کے دفاع کے لیے لیے تیزی سے میدان میں آ گئے ہیں۔ ان افراد میں رکن کانگریس جِم جورڈن بھی شامل ہیں جو ایوان کی عدالتی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ امریکہ کے لیے افسوس کا دن ہے۔ خدا ٹرمپ پر رحم کرے۔‘
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے نامزد خصوصی وکیل جیک سمتھ ان خفیہ دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہیں جو ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ مار-اے-لاگو پر محفوظ کر رکھے تھیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے اگست میں مار-اے-لاگو میں تلاشی کا وارنٹ دکھا کر بعد تقریباً 11 ہزار دستاویزات قبضے میں لیں ٹرمپ کو ان دستاویزات کی بازیابی کی کوششوں میں کئی ماہ تک رکاوٹ ڈالنے پر انصاف میں رکاوٹ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹرمپ نے بالآخر گذشتہ سال جنوری میں تقریباً 200 خفیہ دستاویزات پر مشتمل 15 ڈبے نیشنل آرکائیو کے حوالے کر دیے لیکن انہیں اس بات طلب کیا گیا کہ آیا ان کے قبضے میں مزید ریکارڈ تو نہیں ہے۔
تفتیش کار مار-اے-لاگو کے سٹور روم کے قریب مقام جہاں دستاویزات رکھی گئی تھیں، دستاویزات اور سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کئی کوششوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
قانونی مشکلات میں اضافہ
کچھ ڈیموکریٹک قانون سازوں نے غیر معمولی خبر کے بعد بات کی۔
ہاؤس کے ڈیموکریٹ رکن ایڈم شِف نے کہا کہ ٹرمپ کی ظاہری فرد جرم ’قانون کی حکمرانی کا ایک اور ثبوت ہے۔‘
شیف نے مزید کہا کہ ’چار سال تک انہوں (ٹرمپ) نے ایسے کام کیا جیسے وہ قانون سے بالاتر ہوں۔ لیکن ان کے ساتھ کسی دوسرے قانون شکن کی طرح کا برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ اور آج وہ ہو گیا۔‘
ٹرمپ نے بارہا دستاویزات کے معاملے میں غلط کام کی تردید کر چکے ہیں جن میں یہ بیان بھی شامل ہے جس میں یکم جون کو فاکس نیوز کے زیر اہتمام ٹاؤن ہال میں ہونے والی انہوں نے کہا: ’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک تھا۔‘
لیکن انہوں نے دستاویزات لینے اور پاس رکھنے کرنے کا سرعام اعتراف کیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے وکلا کے اس مشورے کو نقصان پہنچایا کہ افراتفری میں روانگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی الجھن کے سبب وہ نادانستہ طور پردستاویزات ساتھ لے گئے۔
واٹر گیٹ سکینڈل کے سابق پراسیکیوٹر جِل وائن بینکس نے نیوز چینل ایم ایس این بی سی سے بات چیت میں کہا کہ ’یہ ثبوت پہلے سے موجود ثبوتوں میں ایک اور اضافہ ہیں اور کوئی ثبوت ایسا نہیں کہ ’سب ہو جائے اور معاملہ ختم ہو جائے‘ لیکن جب آپ ان سب کو اکٹھا کرتے ہیں، تو کیس بہت مضبوط ہو جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ (ٹرمپ) دستاویزات ساتھ لے جائیں گے۔‘
تازہ ترین فرد جرم ایسے وقت سامنے آئی جب ٹرمپ کو پہلے سے کئی دیگر تحقیقات کا سامنا ہے۔ جب کہ وہ 2024 میں صدارت کے لیے موجودہ صدر جو بائیڈن کو چیلنج کرنے کے لیے رپبلکن امیدوار بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
سمتھ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آیا ٹرمپ کو 2021 میں امریکی کانگریس کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کے الزامات کا سامنا کرنا چاہیے۔ امریکی ریاست جارجیا کے پراسیکیوٹرز اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا ٹرمپ نے 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
سابق صدر پر پہلے ہی پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو خاموش کرنے کے لیے مبینہ طور پر رقم دینے کے معاملے میں کئی مالی جرائم کی فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور اگلے سال بنیادی انتخابی سیزن کے وسط میں ان پر مقدمے کی کارروائی شروع ہو گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمات
ڈونلڈ ٹرمپ کو مختلف ریاستوں اور مقامات پر پوچھ گچھ کا سامناہے۔ ان کا معاملہ دوسرے سیاست دانوں سے مختلف ہے جن کے پاس خفیہ دستاویزات ہیں۔
ٹرمپ کے مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے کی علامات میں اس ماہ اضافہ ہوا۔ قانونی مشکلات اور ملکی صدارت کے لیے رپبلن پارٹی کے بہت زیادہ امیدوار میدان میں ہونے کے باوجود 2024 کے صدارتی الیکشن میں پارٹی امیدواروں میں سب سے آگے ہیں۔
ٹرمپ کے اتحادیوں کی طرف سے فرد جرم کی مذمت
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے جمعرات کو وفاقی فرد جرم کی خبر پر غصے کے ساتھ رد عمل کا اظہار کیا اور بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے اور سوالات کو محکمہ انصاف کو بھیج دیا۔
میک امریکہ گریٹ اگین انکارپوریشن کی ایک ترجمان کیرولین لیویٹ نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ جو یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ (رپبلکنز) کسی بھی طرح ایک اور فتح حاصل نہیں کر سکتے، اس نے ٹرمپ پر فرد جرم عائد کر کے ایسا قدم اٹھایا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘ مذکورہ کمپنی ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی زبردست حامی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے کہا کہ اسے فرد جرم کے بارے میں کوئی پیشگی علم نہیں تھا اور سب خبروں سے معلوم ہوا ہے۔
جمعرات کی رات فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں سینیٹر ٹِم سکاٹ نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ نظام انصاف کے ’ترازو کے پلڑے‘ کی بنیاد سیاست پر ہے۔ ’امریکہ میں ہر فرد کو بے قصور سمجھا جاتا ہے مجرم نہیں۔‘
انہوں نے ’محکمہ انصاف کو سابق صدر کے خلاف ہتھیار‘ بنائے جانے کی مذمت کی۔ سکاٹ نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ سے بات نہیں کی اور وہ ’اپنی قوم کے لیے دعا کرتے رہیں گے اور دعا کرتے رہیں گے کہ انصاف کی بالادستی ہو۔‘
ایوان کے سپیکر کیون میک کارتھی کا کہنا تھا کہ ایک صدر کو زیب نہیں دیتا وہ اپنے خلاف سرکردہ امیدوار پر فرد جرم عائد کرے۔