مالی سال 24-2023 کے وفاقی بجٹ میں حکومتِ پاکستان نے فنون کے شعبے میں تین ارب روپے خصوصی طور پر مختص کیے ہیں، جن میں سے ایک ارب روپے فنکاروں کے بیمے (انشورنس) کے لیے اور دو ارب روپے فلم سازی کے لیے رکھے گئے ہیں۔
یہ رقم صحافیوں کے لیے مختص کی گئی ایک ارب روپے کی رقم کے علاوہ ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بتایا کہ ’حکومت پاکستان فلموں کے ذریعے اس مملکت کے بیانیے، اس کی تاریخ و ثقافت کی عالمی سطح پر بہترین عکاسی اور خاص کر سیاحتی مقامات کی تشہیر کے ذریعے ’سکرین ٹورازم‘ یا ’فلمی سیاحت‘ کے فروغ کی خواہاں ہے۔‘
’سکرین ٹورازم‘ یا فلمی سیاحت کا مطلب کسی ایسے مقام کی مقبولیت ہے، جو کسی فلم میں دکھائی گئی ہو اور ملکی و غیر ملکی سیاح اسے دیکھنے آئیں۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق انہیں یقین ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت کو ان اقدامات کے ذریعے سہولتیں حاصل ہوگی اور فنکاروں کے لیے بیمہ پالیسی کی مد میں رکھی جانے والی رقم پاکستانی فنکاروں کی فلاح و بہبود میں کام آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ فلم سازی کے لیے رقم قرض نہیں بلکہ گرانٹ (امداد)کی صورت میں دی جائے گی اور ہر فلم کو علیحدہ حیثیت میں پرکھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ اسے مکمل یا شراکت داری کی بنیاد پر امداد دی جائے۔
وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ اس امدادی رقم کا مقصد صرف ایک ہی طرح کے موضوعات پر فلمیں بنانا نہیں ہے، بلکہ موضوعات کو وسعت دینا ہے تاکہ اس کے ذریعے فلمی سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوسکے۔
مریم اورنگزیب کے مطابق فلم سازی کے لیے رکھی گئی امدادی رقم کے بارے میں فیصلہ 10 رکنی فلمی کونسل کرے گی اور پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور مختلف اداروں کے سربراہ اس کا حصہ ہوں گے۔ یہ فلم کونسل فیصلہ کرے گی کہ کس کہانی کو فلم سازی کے لیے کس حد تک اور کتنی رقم بطور امداد دی جاسکتی ہے۔
فنکاروں کی انشورنس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فنکاروں کو ان کی آمدنی کے حساب سے ہی انشورنس دی جائے گی اور اس ضمن میں موجودہ صحت کارڈ کے لیے ہی وضع کردہ اصولوں پر عمل ہوگا تاکہ ضرورت مند فنکار اس سے مستفید ہوسکیں۔
’انتہائی بہترین قدم‘
پاکستان کے بیشتر فلم سازوں نے حکومت پاکستان کے ان اقدامات کو سراہا ہے تاہم اس کے طریقہ کار کو شفاف بنانے پر زور دیا ہے۔
فلم ساز فضہ علی میرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اسے حکومت کا ’انتہائی بہترین قدم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر اس جانب درست سمت میں بڑھا جائے تو اس کے بہت ہی اچھے نتائج ملیں گے۔‘
مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے سی ای او ندیم مانڈوی والا نے اس ضمن میں کہا کہ فلم سازوں کی جانب سے یہ مطالبہ طویل عرصے سے کیا جارہا تھا کہ فلم سازی کے لیے قرض نہیں بلکہ گرانٹ دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت نے فلم سازی کے لیے فنڈ مختص کردیے ہیں تو یہ فلم سازوں کے لیے بہت حوصلہ افزا بات ہے اور اس سے فلم سازوں کو ہمت ملے گی جو ملک میں سینیما کی قلیل تعداد کی وجہ سے فلم سازی کی جانب آنے میں تامل کا شکار ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماسٹر مائنڈ پروڈکشنز کے سربراہ حسن ضیا کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت کی ترقی دراصل ملک کی معیشت سے جڑی ہے۔ ’اگرچہ یہ اقدامات اچھے ہیں مگر ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کو بہتر کیے بغیر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کو یقینی بنانا ہوگا فلم سازی کے لیے مختص رقم کا فائدہ صرف حقیقی فلم سازوں کو ہی پہنچے اور فصلی بٹیرے اس سے مستفید نہ ہوسکیں۔‘
اے آر وائی فلمز کے سربراہ عرفان ملک نے حکومتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے اربابِ اختیار کی توجہ فلمی صنعت کی جانب مبذول کروانے کے لیے کوشاں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدامات اچھے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے کیونکہ وہی یہ بتائے گا کہ ہم اس اعلان سے کوئی فائدہ اٹھاسکتے ہیں یا نہیں۔‘
ہم فلمز کے سربراہ بدر اکرام کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتِ پاکستان فلمی صنعت کی بحالی کے لیے سنجیدہ ہے اور وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کی ذاتی دلچسپی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ’ضرورت اس امر کی ہے کہ گرانٹ کی فراہمی کا نظام شفاف ہو اور میرٹ کی سختی سے پاسداری کی جائے تاکہ پاکستان کا بیانیہ دنیا بھر میں پھیلایا جاسکے اور پاکستانی فلم کا بھی وہی مقام ہو جو پاکستانی ڈرامے نے حاصل کیا ہے۔‘
’تعریف نہیں سلام‘
فنکاروں کی بہبود کے لیے حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے کی انشورنس کے بارے میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بتایا کہ اس ضمن میں ہیلتھ کارڈ کے ذریعے فنکاروں کی مدد کی جائے گی، جن کا نام فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن تجویز کرے گی۔
اس بارے میں سینیئر اداکار ساجد حسن نے کہا کہ ایک فنکار کی حیثیت سے وہ یہ سجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا بہترین کام ہے اور چونکہ تخلیقی صلاحیت کے مالک اکثر افراد عموماً معاشی طور پر خوشحال نہیں ہوتے تو اس لحاظ سے یہ بہت اہم قدم ہے۔
انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی صرف تعریف نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں سلام پیش کیا جانا چاہیے۔‘
سینیئر اداکار بہروز سبزواری نے بھی حکومت کی جانب سے ایک ارب روپے مختص کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت ہی زبردست کام ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ شوبز کی صنعت سے وابستہ کیمرا مینوں اور دیگر ٹیکنیکل افراد کو بھی اس میں شامل کرے تاکہ وہ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔