اکرم کراچی کے رہائشی ہیں۔ وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ پانچ بچوں، ایک بیوی اور بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے بچوں کو سکول سے ہٹا لیا ہے۔ گھر میں تین وقت کی جگہ دو وقت کا کھانا بنتا ہے۔ دو ماہ سے ماں باپ کی ادویات ادھار پر لے رہے ہیں۔
انہوں نے کچھ دن قبل وزیر خزانہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس مرتبہ عوام دوست بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اکرم سمجھے کہ عوام دوست کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کم ہو گی اور ان کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔
نو جون کو جب بجٹ پیش ہوا تو انہیں دفتر کے بی اے پاس دوست نے بتایا کہ اس بجٹ میں غریب عوام کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ آٹا، دال، چینی، بجلی سستی نہیں ہوں گی۔ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور آمدن بڑھنے کے بھی امکانات نہیں ہیں۔
اکرم مایوس گھر لوٹ آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ بھی ایک ناکام بجٹ ہے۔ میں اس وقت بجٹ کو کامیاب مانوں گا جب میری بچے سکول جائیں گے، تین وقت پیٹ بھر کے کھانا کھائیں گے اور میرے ماں باپ کو دوا آسانی سے میسر ہو گی۔
اگر حکومت یہ نہیں کر سکتی تو عوام دوست بجٹ کے سارے دعوے جھوٹے ہیں۔ اگرم کی طرح دیگر شعبوں سے وابستہ پاکستانی اس بجٹ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، انڈیپنڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔
اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو حکومت نے مالی سال 2023-24 کے بجٹ کا حجم 14 ہزار 460 ارب روپے رکھا ہے۔ یعنی کہ حکومت کے مطابق وہ 14 ہزار 460 ارب روپے مختلف ذرائع سے وصول کرے گی اور اتنی ہی رقم ایک سال میں خرچ کرے گی۔
جن ذرائع سے یہ رقم حاصل ہو گی ان میں ٹیکس آمدن 9 ہزار 200 ارب، نان ٹیکس آمدن 2 ہزار 963 ارب، بینکوں سے 3 ہزار 124 ارب قرض، بینکوں کے علاوہ 1ہزار 906 ارب قرض، بیرون ملک سے 2 ہزار587 ارب قرض اور نجکاری سے 15 ارب روپے حاصل کیے جانے کی تجویز ہے۔
اس میں سے 5 ہزار 276 ارب صوبوں کو دینے کے بعد 14 ہزا 460 ارب روپے وفاقی حکومت کے پاس خرچ کرنے کے لیے موجود ہوں گے۔ جن میں سے تقریبا سات ہزار ارب روپے سے زیادہ قرض لینے ہوں گے۔
اگر اخراجات پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سات ہزار 303 ارب روپے سود کی ادائیگی میں جائیں گے۔ 761 ارب پنشنز، ایک ہزار 804 ارب دفاع، ایک ہزار 464 ارب گرانٹس، ایک ہزار 74 ارب سبسڈیز، 714 ارب سول سرکار، 200 ارب ایمرجنسی اور ایک ہزار 140 ارب ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوں گے۔
کیا حکومت یہ رقم حاصل کر پائے گی اور کیا اتنے ہی اخراجات کرے گی، اس بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ لیکن پاکستانی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا جو بجٹ پیش کیا جائے اس پر سال کے اختتام تک من و عن عمل بھی کیا جائے۔
اگر بجٹ کی تفصیلات میں جایا جائے تو بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کی جانا ضروری ہے۔ بظاہر یہ بجٹ ویسا ہی ہے جیسا الیکشنز سے پہلے کا بجٹ ہوتا ہے۔ اس میں کاروباری طبقے اور سرکاری ملازمین کے لیے اچھی خبریں ہیں۔ لیکن نجی ادروں کے تنخواہ دار طبقے اور عام پاکستانی کے لیے اچھی خبریں نہیں ہیں۔
سولر پینلز، ان کی بیٹریوں اور انورٹرز کی مینوفکچرنگ کے خام مال پر ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال بھی سولر انرجی پر منتقل ہونے کے لیے بجٹ میں مثبت اقدامات اٹھائے گئے تھے۔ سرکاری عمارتوں کو سولر پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ایل سیز نہ کھلنے اور درآمدات پر پابندی کے باعث خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو سکا۔ خام مال پر ڈیوٹی کم کرنے کا فائدہ اس وقت ہو گا جب درآمدات کے لیے ڈالرز بھی میسر ہوں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 اضافہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تعداد ہی کتنی ہے۔ وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اصل مسئلہ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کا ہے۔ ان کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ صرف کم از کم تنخواہ 32000 روپے کا اعلان کر دینا کافی نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت چیک اینڈ بیلنس رکھے کہ نجی ملازمین کی تنخواہوں کی کم سے کم حد پر عمل بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔
کاروبار کی بری صورتحال کی وجہ سے نجی ادارے ملازمین کو نکال رہے ہیں تاکہ اخراجات کم کیے جا سکیں۔ بجٹ میں ان معاملات کو زیر بحث لایا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ بیرون ملک سے بغیر کسی ثبوت کے سالانہ ڈالرز لانے کی حد 50 لاکھ مالیت سے بڑھا کر ایک کروڑ کر دی گئی ہے۔
جب 50 لاکھ کی حد مقرر کی گئی تھی اس وقت ڈالر 100 روپے کا تھا۔ آج ڈالر تقریبا 300 روپے کا ہے۔ اصولی طور پر کم از کم ڈیڑھ کروڑ کی مالیت کے برابر ڈالرز تک پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس کے علاوہ کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بیرونی کرنسی میں ادائیگی پر فائلرز کے لیے ٹیکس ایک فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ اس سے ڈالرز ملک سے باہر جانے کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کریڈٹ کارڈز کی ادائیگی کے لیے آج بھی بینکس اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید رہے ہیں۔ اس سے اوپن مارکیٹ ریٹ بڑھے گا۔
اس کے علاوہ درآمدکنندگان کریڈٹ کارڈز سے ادائیگی کرنے کی بجائے ہنڈی حوالے سے ڈالر خریدنے کو ترجیح دے سکتے ہیں کیوں کہ سٹیٹ بینک نے انہیں ہنڈی حوالے سے ڈالرز خریدنے کی قانونی اجازت دے رکھی ہے۔ جس سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کا فرق مزید بڑھ سکتا ہے۔ بجٹ میں حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کوئی نیا اور سخت قانون متعارف نہیں کروایا گیا۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر موجودہ دو فیصد فائنل ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اس فیصلے کے ریئل سٹیٹ پر زیادہ اچھے اثرات مرتب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ بیرون ملک پاکستانی سرمایہ لگانے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ انہیں اس پر منافع کیا ملے گا اوراپنا پیسہ واپس کیسے اور کب نکال سکیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت ریئل سٹیٹ میں اربوں روپے بیرون ملک پاکستانیوں کے پھنسے ہوئے ہیں اور وہ یہ سرمایہ نکال کر واپس لے جانے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
اگر حکومت ریئل سٹیٹ میں واقعی ریلیف دینا چاہتی ہے تو ہر خاص و عام پاکستانی کے کیے رعایتیں دینے سے ہی حالات کچھ بہتر ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اور بین الاقومی ادارے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار نہیں کریں گے بیرون ملک پاکستانی مزید سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہ سکتے ہیں۔
ریئل سٹیٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ریلیف دینے کی بجائے اگر صنعت لگانے کے لیے ریلیف دیا جاتا تو اس کے معیشت پر بہتر نتائج سامنے آ سکتے تھے۔ روزگار بڑھ سکتا تھا اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکتا تھا۔
بجٹ میں مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے کوئی خاص اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ گو کہ بنیادی استعمال کی چیزوں میں مزید ٹیکسز نہیں لگائے گئے لیکن ٹیکسز کم بھی نہیں کیے گئے اور سبسڈی بھی نہیں دی گئی۔ یعنی کہ 38 فیصد مہنگائی کم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ زرعی صنعتوں کے قیام پر ٹیکس مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ یکم جولائی 2023 سے قائم ہونیوالی زرعی صنعتوں کو پانچ سالہ انکم ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔ فاٹا اور پاٹا کو مزید ایک سال ٹیکس چھوٹ کی سفارش کی گئی ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ ان سہولتوں کا غلط استعمال نہ ہو۔
ڈار صاحب کو تو موقع چاہیے اپنی بڑائی بیان کرنے کا۔ گذشتہ روز بجٹ سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت پر تنقید کرنا وقت کا ضیاع تھا۔
بجٹ معاشی سے زیادہ سیاسی لگ رہا تھا کیوں کہ وزیر خزانہ صاحب نے بجٹ کی شروعات ہی مخالف سیاسی جماعت پر تنقید سے کی تھی۔