سابقہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل میں بننے والے سیاسی اتحاد نے اتوار کو حکومت سے مطالبہ کیا کہ عید الاضحیٰ سے قبل طورخم بارڈر پر دنبوں کی درآمد پر پابندی کو ختم کیا جائے۔
اس سلسلے میں ایک قومی گرینڈ جرگے کا انعقاد کیا گیا جس میں علاقائی مشران، ملکان اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ گذشتہ پانچ سالوں سے عائد دنبوں کی درآمد پر پابندی روزگار میں مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
جرگے کے سربراہ اور سیاسی اتحاد کے صدر مراد حسین آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علاقے کے عوام طویل عرصے سے یہ مسئلہ برداشت کر رہے ہیں اور اب یہ صبر کا امتحان بن چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا جرگے کا مقصد دنبوں پر عائد پابندی کا خاتمہ ہے جس کی بنا پر لنڈی کوتل کے روزگار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
مراد حسین آفریدی کہتے ہیں: ’عید الاضحیٰ آنے والی ہے جبکہ مارکیٹ میں دنبوں کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ اس سے پہلے دنبے طورخم کے راستے افغانستان سے لائے جاتے تھے جن کی قیمتیں بہت کم تھیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ لیکن چار پانچ سال سے دنبوں کی طورخم بارڈر پر درآمد پر سختی ہے مختلف محکموں کی جانب سے ’بےجا اقدامات اور شرائط‘ عائد کی گئی ہیں۔
ان کے بقول جرگے کا یہی مقصد ہے کہ پابندی کو ختم کرایا جا سکے۔
مراد حسین آفریدی نے بتایا کہ سیاسی اتحاد اس حوالے سے اسلام آباد میں اعلیٰ حکام میں وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) اور قرنطینہ کرنے والے عملے سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔
انہوں نے کہا: ’یہاں لنڈی کوتل میں چھوٹے گوشت کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ یہاں لوگ شینواری تکہ کھانے ملک بھر سے آتے ہیں خصوصاً سیاحوں کی یہاں آنے کی ایک بڑی وجہ شینواری تکہ کھانا ہوتا ہے اب چونکہ بارڈر پر دنبوں کی درآمد پر پابندی ہے تو اسی وجہ سے ان کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہے۔
’پہلے یہاں ایک کلو دنبے کا گوشت سات سو روپے میں ملتا تھا اب اس کی قیمت 22 سو روپے تک جا پہنچی ہے۔ یہاں پر زراعت اور کارخانے نہیں ہیں لوگوں کا بس یہی ایک روزگار ہے جو ان سے لیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب یہاں کے باسی عید الاضحی کی قربانی کے لیے انحصار افغاستان کے دنبوں پر ہی کرتے ہیں۔‘
مراد حسین آفریدی مزید کہتے ہیں: ’حکومت کی یہ غلط فہمی ہے کہ دنبوں میں کانگو وائرس ہوتا ہے حالانکہ کانگو وائرس بڑے جانوروں میں ہوتا ہے جو پاکستان سے افغانستان برآمد کیے جاتے ہیں۔‘
لنڈی کوتل بازار میں شینواری تکہ پکانے والے قصائی نورنگ شینواری نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’لنڈی کوتل بازار کو شینواری تکے کی بدولت ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہاں سیاح بہت آتے ہیں اور یہی شینواری تکہ کھا کے چلے جاتے ہیں. اب چونکہ طورخم بارڈر پر دنبوں کی درآمد کو روک لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب ہم کوئٹہ کے راستے افغانستان سے دنبے لے آتے ہیں۔‘
نورنگ شینواری بتاتے ہیں کہ ان سے راستے میں دنبے کہیں گم تو کہیں مر جاتے ہیں۔
’اس طرح فی دنبے کی قیمت 10 سے 12 ہزار روپے بڑھ جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ لنڈی کوتل کے سیاسی اتحاد کے جرگے سے توقع رکھتے ہیں اور امید ظاہر کرتے ہیں کہ جرگہ سرحد پار دونوں جانب اس حوالے سے رکاوٹوں کو دور کر کے دنبوں پر عائد پابندی کو ختم کرے گا۔
اس حوالے سے جب انڈپنڈنٹ اردو نے ضلعی انتظامیہ کے اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل ارشاد علی مہمند سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا: ’فاٹا کے انضمام سے پہلے اس قسم کے مسائل پر ہم دونوں ممالک کے مابین فیلگ میٹنگ منعقد کرتے تھے اور ان کا حل نکالتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب انضمام ہو چکا ہے تو اس حوالے سے تجارت کے کچھ بین الاقوامی قوانین کا بھی خیال رکھنا لازم ہے۔
’ضلعی انتظامیہ دنبوں کی درآمد کے حوالے سے اپنی کوششیں کر رہی ہے تاکہ سنت ابراہیمی کے موقع پر لوگوں کی قوت خرید کے مطابق قربانی کے لیے دنبے میسر ہوں۔
’اس حوالے سے ہم کسٹمز، خیبر رائفلز، لائیو سٹاک سمیت دیگر اداروں سے بھی رابطے میں ہیں مگر 2018 سے اس گھمبیر مسئلے کے اوپر سفارتی سطح پر حل ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے اپنی حیثیت میں تمام تر اقدامات کے لیے چوکس ہے اگر بیوپاریوں کو دنبے پاکستاں لانے کی اجازت ملے گی تو قرنطینہ سمیت دیگر تمام تر اتنظامات جو ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہیں اس میں مدد ملے گی۔
انڈپنڈنٹ اردو نے اس حوالے سے طورخم کسٹم سٹیشن کے اسسٹنٹ کلکٹر سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔